تحریر۔روہیل اکبر
پاکستان میں جہاں آجکل پڑھا لکھا باشعور اور ایماندار طبقہ قیامت خیز مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے وہی پر ایسے بے روزگاروں کی مالی مشکلات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوگا کہ جو جسمانی طور پر معذور افراد ہیں جنہیں ہم سڑکوں پر بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کے ایک دن کے سفر کے لیے خود کتنا سفر طے کرتے ہیں اسی طبقہ میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو آنکھوں جیسی نعمت سے محروم ہے گذشتہ روز بصارت سے محروم افراد کا عالمی دن تھا جسے دنیا بھر میں سفید چھڑی کے نام سے منایا جاتا ہے اسی دن کی مناسبت سے نابینا افراد نے بھی اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھائی تو ان اندھے افراد پر عقل کے اندھے حکمرانوں نے اپنے اندھے قانون کی مدد سے ظلم کی اندھیر نگری میں ان نابینا افراد پر اندھا ظلم کیا
پولیس ان پر ایسے دھاڑتی ہوئی ہوئی چڑھ دوڑی جیسی کتا بلی پر پر حملہ کرتا ہے ویسے تو ہماری پولیس کے شیر جوان ایسے ہیں کہ وہ گشت پر بھی نکلیں تو اپنے ہمراہ بھاری نفری لیکر نکلتے ہیں ایس ایچ اور اور اس سے بڑے عہدوں کے افسر تو اکیلے باہر نکلتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں جب تک چند پولیس والے لمبی لمبی گنوں کے ہمراہ انکے ساتھ نہ ہوں تو وہ باہر نکلنے کی جرائت نہیں کرتے لیکن جہاں انہیں ایسے افراد نظر آئیں گے جو حکمرانوں کے ستائے ہوئے ہوں اور اپنے حالات سے تنگ آکر سڑکوں پر آکراپنا حق لینے کے لیے احتجاج کررہے ہو تو ان پر پولیس اپنے مظالم کی انتہا کردیتی ہے
ہماری پولیس نے توخیر ایسا کرنا ہی تھااور ان سے خیر کی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ ملک میں غریب ،مزدور ،محنت کش ،ایماندار اور محب وطن پاکستانیوں کے لیے دوسرے درجے کا قانون ہے جبکہ چوروں ،لٹیروں ،ڈاکوؤں اور عوام کو بیوقوف بنا کر ایوان اقتدار تک آنے والوں کے لیے پہلے درجے کا قانون ہے جس میں انہیں ہر جگہ وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور ہمارا قانون بھی ایسے افراد کو انکے تمام جائز اور ناجائز حقوق انکی دہلیز پر پہنچانے میں لگ جاتا ہے اور جن کے ووٹوں کی طاقت سے ایک عام آدمی خاص بن جاتا ہے وہ سرکاری ہسپتالوں میں سر درد،بخار اور نزلہ کی معمولی قیمت کی ادویات کو بھی ترستے ہیں رہ گئے
ہمارے پولیس اسٹیشن وہ جرائم کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ یہ ایسے افراد کی تربیت گاہیں بن چکے ہیں جودیدہ دلیری سے لوٹنا جانتے ہوں پولیس ان کو اپنی سرپرستی میں لیکر پھر ان سے دھندہ کرواتی ہے اور ہماری جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں بن چکی ہیں جہاں پر ملزم کو مجرم بنا کر باہر نکالا جاتا ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے لیے جیل جانا اقتدار کے ایوانوں تک جانے کی ضمانت بن جاتا ہے جو جو سیاسی لٹیرا جتنا عرصہ جیل میں گذارے گا اسے اتنا ہی حکومت میں زیادہ چانس ملے گا اسی لیے تو مسلم لیگ ن کی حکومت عمران خان کو جیل میں بند کرنے سے کتراتی ہے کہ کہیں وہ بھی انکی طرح بڑا لیڈر نہ بن جائے حالانکہ اس نے حکمرانوں کی ناک میں دم کررکھا ہے اور اسلام آباد جیسا شہر دھرنوں اور جلسوں کی زد میں ہے جبکہ لاہور سمیت پاکستان کے دوسرے تمام شہروں میں کوئی بھی مظلوم طبقہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے
تو حکومت فورا اسے پکڑ کر اندر کردیتی ہے کچھ دن قبل قصاب برادری نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انکے 68عہدیداروں کو اٹھا کر جیل میں نظر بند کردیا گیا ان میں سے بہت سے ایسے بزرگ اور بیمار افراد بھی تھے جن کو ادویات سمیت نگہداشت کی بھی ضرورت تھی مگر حکومت نے نہ صرف ان پر مقدمات بنا کر انہیں جیل میں پابند سلاسل کردیا بلکہ انکی ہر طرح کی ملاقات بھی بند کردی تاکہ انہیں اس بات پر راضی کیا جائے کہ انہوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا کر بہت بڑی غلطی کی اس طرح پنجاب حکومت نے معذور افراد پر بھی پولیس کے زریعے ظلم کروایا مگر بعد میں عوام کے پریشر میں آکر وزیر اعلی پنجاب ان سے معافی اور ملاقات کرنے پر مجبور ہوگئے
اس طرح پنجاب کے ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہے جن سے موجودہ حکومت نے انکے 7مطالبات پورے کرنے کی یقین دھانی کروائی تھی جو ابھی تک پورے نہیں کیے گئے اگر موجودہ حکومت کا یہی وطیرہ رہا تو پھر پاکستان کا ہر طبقہ سڑکوں پر آجائیگا اور حکومت کس کس کو پکڑ کر جیل میں ڈالتی رہے گی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے اپنی بے لگام پولیس کو شہریوں کے احترام کا سبق پڑھائے اور ملک میں بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کو سختی سے کچلے تاکہ موجودہ حکومت پر عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔