تحریر : انجینئر افتخار چودھری
آج پریس کانفرنس تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہاں سے آیا ہوں۔ موضوع تھا پارٹی کی تمام تنظیموں کی تحلیل سوائے بحیثت فائونڈر چیئرمین فنانس سیکریٹری ان کے معاون اور سیکریٹری انفارمیشن اور ان کے معاون یعنی ڈپٹی سیکریٹری ایڈیشنل اور اسسٹنٹس باقی سب فارغ۔ میں سینئر صحافی ملک منظور مظہر برلاس اور دیگر کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ شارٹ نوٹس پر شریک محفل ہوئے ۔سچی بات ہے تجربہ بولتا ہے ان کے اٹھائے گئے سوالات جاندار تھے۔برادر مصدق گھمن اور چند کالمسٹ بھی رونق محفل تھے۔اتنے میں ملک منظور کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صحافی نے خان صاحب کی چھوٹی انگلی میں پہنی انگوٹھی کے بارے میں سوال کر دیا یہ کیسی انگوٹھی ہے جس سے قائد نے محفل کو زعفران زار کر دیا یہ وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں ہیٹ ٹرک کرنے میں وقت لگتا تھا۔سامنے بیٹھے ہوئے شرارتی دوست ٹکا خان ثانی نے اسی وقت چینیل ٩٢ کو بتا دیا کہ بریکنگ نیوز دے دو کی انگوٹھی وہ نہیں۔اور ہیٹ ٹرک جلدی نہیں ہو گی۔پھر کیا تھا میڈیا میں انگوٹھی نے سب کو دبا لیا۔
گرچہ آج انٹرا پارٹی انتحابات کا اعلان تھا لیکن انگوٹھی کی خبر چھائی رہی اور لوگ خان صاحب کے جملوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔سنجیدہ لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے مگر ایک لحاظ سے یہ بات خوشگوار تھی کے خان صاحب گزشتہ چند ماہ سے ایک ٹینشن کی حالت میں تھے۔انہیں طلاق کے صدمے سے نکلتے ہوئے ایک عرصہ لگا۔آپ عمران خان سے جتنی بھی مخالفت کر لیں آپ پاکستان میں میں اس دور سے گزر رہے ہیں جس میں یا آپ اس کے ساتھ ہیں یا نواز شریف کے۔لوگ عمران خان کے بارے میں سننا چاہتے ہیں جاننا چاہتے ہیں اس نے گلے میں مفلر ڈالا تو بڑے بڑے جغادریوں نے بھی صافا پہن لیا اس نے دو رنگی ٹوپی پہنی تو سب کو پہننی پڑ گئی اگر اس نے کوئی چپل پہنی تو اس کے ریٹ آسمان کو پہنچ گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق اندرون ملک اور بیرون ملک کوئی دس لاکھ سے زائد کپتانی چپل بکی۔
لوگ باہر سے خان شرٹس منگواتے ہیں۔خان سے ملنا ایک ملاقات نوبہار کا درجہ رکھتی ہے۔اور ویسے بہت سے لوگ ان سے ملنے آتے ہیں جو گلے شکووں کے ٹوکرے سر پر اٹھائے مگر جب اس آشناء سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو صرف یہی کہتے ہیں کیسے ہیں خان آپ۔زیادہ بو ل لیا تو صحت کا احوال پوچھا فوٹو کھنچوائی اور چلتے بنے ۔اور جنہوں نے بات کرنا ہوتی ہے خان انہیں گھنٹوں وقت بھی دیتے ہیں۔میں اپنی آنکھوں سے راجہ مشتاق اور ان جیسے لوگوں سے عمران خان کومکالمہ کرتے دیکھا ہے جو پروگرام اور مشن لے کر ملتے ہیں۔یادداشت اتنی کہ جب سیف اللہ قصوری، فرخ سعید نے جدہ میں انہیں بتایا کہ شکیل آپ سے ملنے والا ہے تو خان صاحب نے ملتے ہی کہا انجینئر افتخار کے بڑے بیٹے تو نوید ہیں جو ہمارے بڑے سرگرم جوان ہیں۔
میرے بیٹے شکیل سے اس کی جاب کے متعلق پوچھا اور ہدایات دیں شکیل کہتا تھا ابو جب ان سے ملا تو ذہن میں بہت سوال تھے مگر ملنے کے بعد سب ہوا گئے۔( نوید نبیل شکیل عدلیہ تحریک میں اس وقت سایہ بن کر خان کے ساتھ رہے جب آنسو گیس اور لاٹھی چارج ہو رہا تھا)آج بھی بات جوانوں کی ہی ہوئی انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پنڈی یوتھ ایک نئے جذبے کے ساتھ نوید کی قیادت میں سر گرم ہے۔آج شیخ فہد عمیر قیصر عباس بھی لیڈر کے ساتھ تھے۔لوگ کہتے ہیں پنڈی نون کی ہے جب اگلا الیکشن ہو گا حکومت آزاد بندوں کی ہو گی پولیس پر جبر نہیں ہو گا تو دیکھ لیں گے کہ پنڈی کس کی ہے۔آج بھی اس خوف کے پہرے میںہمارے لوگوں نے گلی کوچوں میں سجاد خان جیسے لوگوںکا مقابلہ کیا صفدر ساہی ٧ ووٹوں سے ہارا زبیر ٢٩ ووٹوں سے ۔یہ پی ٹی آئی کا جنوں تھا صابر تنولی مانسہرہ سے آیا اور ایئر پورٹ سوسائٹی میں ٣٥٠ ووٹوں کی لیڈ سے جیت گیا۔سلام پنڈی کو جس نے لوکل نان لوکل کی نفرت بھری آواز کو پرے دھکیل دیا۔ خان کو پنڈی کے نوجوانوں سے امید ہے کہ وہ آنے والے انتحابات ایک بار پھر پنڈی کو انصافین رنگ دیں گے۔
آج برادر نعیم الحق نے انگوٹھی پر مزید روشنی ڈالی اور بتایا کہ ایک بابا جی انہیں دی ہے۔یہ اک اور خوشگوار خبر تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جن دنوں بنی گالہ جاتے ہوئے عمران خان کو لوٹا گیا تو میں نے کہا تھا کہ گارڈ رکھ لیں جواب دیا گاڈ ہے نہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہو سکتی۔خان سے ملنا ملاقات نوبہار ہوتی ہے۔ہم اس کے ارد گرد کے لوگ اپنے لیڈر کو اسی طرح ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں۔کل ایک گینڈے نما شخص ریحام خان کو میٹرو دکھا رہا تھا ۔صحافی نے پوچھا کیا تبصرہ ہے میں نے وجیح بھائی کو جواب دیا یہ انکا ظرف ہے ورنہ ہم بھی عائشہ احد کو لئے پھرتے اور ویسے بھی جنگل میں شیر کے کئے ہوئے شکار کو لگڑ بگڑ ہی للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ریحام کی اس کوشش پر پارٹی خاموش ہے بس اتنا ہی کہیں گے کہ اور رسوا نہ ہوں۔فیصل آباد کا موٹا تھانے دار جب انہیں سمجھا رہا تھا تو میری آنکھیں تر تھیں کہ کل کی میری معزز بھابی کو یہ باتیں بھی سننا پڑ رہی ہیں۔ریحام خان ایک کالمسٹ بن کر اس ملک کے ان بچوں کی بہتر خدمت کر سکتی ہیں جنہیں مدارس سے باہر رکھا گیا ہے۔آج خوشی ہے کہ میرا لیڈر اس قومے سے باہر ہے۔باقی رہی ہیٹ ٹرک تو اسلام میں بیک وقت چار رکھنے کی گنجائش ہے خان کا خانہ تو خالی ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری