تحریر : ممتاز ملک
پاکستان کو انتہاء پسندوں اور اسلام کا نام لیکر اور کتنا برباد کیا جائے گا . اس سال 2015 کے ابتدائی مہینوں میں اقلیتوں کے حوالے سے ہونے والا ایک اور شرمناک واقعہ ہمارا سر جھکا گیا اور حکومتی سطح پر انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں . جب رنکل کماری نامی انیس سالہ طالبہ کو سندھ کے علاقے میرپور ماتھیلو کا بااثر آدمی نوید شاہ اپنے غنڈوں کیساتھ مل کر ڈراتا دھمکاتا ہے اغوا کرتا ہے. اس لڑکی کے والد اور گھر والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور لڑکی کومسلمان بنا کر اس سے نکاح کا ڈرامہ رچاتا ہے . لڑکی نے عدالت میں رو رو کر دہائی دی کہ اسےدارالامان نہیں جانا اور نہ ہی مسلمان ہونا ہے اس سے بہتر ہے کہ اسے مار ڈالا جائے.کسقدر شرم کا مقام ہے ہمارے لیئے،کیا جس گلی میں یہ لڑکی رہتی ہو گی وہاں اور کوئی مسلمان یا انسان نہیں رہتاہو گا ؟ کیا اس شہر میں ، قصبے میں، کسی کو اس لڑکی کے ساتھ ہونے والی ملک بھر میں ایسی ہیرو گیری اور اصل میں غنڈہ گردی کی خبر نہیں ہوئی ہو گی؟ وہاں اور کوئی اس سے باخبر نہیں ہوتا ہو گا
ان میں سے کتنوں نے اس پر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہو گی؟ کتنوں نے ایسی لڑکیوں اور ان کے مذہب کی حفاظت کے لیئے اپنا کردار ادا کیا ہو گا؟کیا ایسی کسی بھی ہندو ، سکھ، عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم کے لیئے آواز اٹھانا بحیثیت مسلمان تو چھوڑیں بحیثیت انسان ہی اٹھانا ہم میں سے کسی کا فرض نہیں ہے ؟گویا اس ملک کے قوانین اس قدر کمزور ہیں کہ ہر چار پیسے والا اسے اپنی لونڈی بنا سکتا ہے. یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن اس کی روک تھام کے عملی اقدامات نہ کیئے گئے تو کوئی بھی ایسی واردات آخری نہیں ہو گی اسلام اتنا مجبور دین کب سے ہو گیا کہ اسے جبری مسلمان بھرتی کرنے کی ضرورت پڑ گئی ..ہمارہ دین تو وہ ہے کہ جس کے اپنی پہلی صلح اور پہلے مسلم اور کفار کے بیچ کے معاہدے میں یہ سب سے اہم شک بھی منظور کی تھی کہ ہمارا کوئی مسلمان کفار کے قبضے میں گیا تو وہ ہمیں اس کو واپس نہیں کرینگے
جبکہ اگر کوئی کافر مسلمان ہوکے مسلمانوں کے پاس آگیا تو کفار کے مانگنے پر اسے انکے حوالے کر دیا جائیگا .یہ واقعہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات نے اسلام کی عظمت اور سربلندی میں اپنا کردار ادا کیا .حالانکہ وہ لوگ بہترین انسان بھی تھے اور بہترین مسلمان بھی تھے. لیکن انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ایمان میں کوئی ضد اور زبردستی نہیں .یہ تو محبت کا سودا ہے جو انسان اپنی خوشی سے اور اپنی روح کی پکار پر کرتا ہے .
آج ہم پاکستان کو اسلام کو بدنام کر کے کس کی خدمت کر رہے ہیں ؟ہم وہ لوگ ہیں جنہیں باہر سے کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں . ہم خود ہی اپنی جہالت کے سبب اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں .جس معاشرے میں لوگ قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے مذہب کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنا اہم سمجھ لیتے ہیں ان معاشروں میں ایسے واقعات نہ حیران کرتے ہیں نہ پریشان . ہمارے ہاں کس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے . کون آیا ؟کیوں آیا ؟کس نے کیا کھایا؟ کیا پکایا؟ جیسے معاملات تو بے حد اہم ہو سکتے ہیں،کہ دیواروں سے کان جوڑ جوڑ کر اس کی سن گن لی جائے ، لیکن جہاں کسی غیر مسلم کی مدد کرنے یا اس پر ظلم ہونے کا سنتے ہیں تو گویا ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے . اور ہم مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں . اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث پاک کو بلکل فراموش کر دیتے ہیں کہ” جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کافر لڑکی کی پکار پر اسے بچاتے ہوئے اپنی چادر مبارک اس کے سر پر اوڑھا دی
ایک آدمی نے کہا کہ سرکار یہ تو کافر کی بیٹی ہے، تو رحمت اللعالمین نے فرمایا” بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے کافر کی ہی کیوں نہ ہو”.آج ہم معاشرے میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی عبادات اور زندگی گزارنے کے حق کو سلب کر کے نہ صرف اللہ کے گناہگار ہو رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں رسوا بھی ہو رہے ہیں اور اپنے ملک سے یہ مذہبی حسن بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں. مذہب کے ٹھیکیداروں نے چاہے خود کبھی ایک دن میں بھی اپنے مذہبی کیا انسانی فرائض بھی ادا نہ کیئے ہوں لیکن دوسروں سے گن پوائنٹ پر کلمہ پڑھوا کر جنت بٹورنے کا شوق ہے کہ انہیں اپنے کالے کرتوت سفید کرنے پر اکساتا ہی رہتا ہے
کیا ہم نے مالی کرپشن کے بعد اب کردار کی کرپشن میں بھی اس دنیا کا ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کر لیا ہے؟؟اتنا ہی شوق ہے کسی کو مسلمان کرنے کا تو اپنے عمل سے ایک اچھے مسلمان کی مثال بنا کر اسے اپنے کردار سے اتنا متاثر کریں کہ دوسرا انسان اس دین کو اپنانے کے لیئے کشاں کشاں چلا آئے. اور ہمارا دین ہی ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی مملکت میں رہنے والے غیر مسلموں کی جان ،مال اور عزت کی حفاظت کریں . یہاں تک.کہ وہ ہم سے خوف نہ کھائیں بلکہ ہماری موجودگی سے تحفظ محسوس کریں . تبھی ہم ایک اچھے مسلمان کہلا سکتے ہیں
تحریر : ممتاز ملک