تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
مارچ کو میری بیٹی کی رخصتی تھی جس کی بناپر دو ہفتے پہلے ہی کالم لکھنا چھوڑ دیئے۔ وجہ یہ تھی کہ بیٹی سے بچھڑنے کاغم میرے پورے وجودپر حاوی ہوگیا ۔یہ ایک ماںہی جان سکتی ہے کہ اپنی بیٹی کو”پیادیس” بھیجنے کے بعد دِل کی کیاحالت ہوتی ہے ۔سچ کہاہے عباس تابش نے کہ ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اِک روز کہا تھا ، مجھے ڈر لگتا ہے لیکن کیاکیجئے کہ رسمِ دُنیایہی ہے ،دستوربھی یہی اورمیرے دین کاحکم بھی یہی کہ بیٹیاںتو ہوتی ہی پرایادھن ہیں۔فرض کی ادائیگی کی خوشی کے ساتھ بچھڑنے کے غم کی تلاطم خیزموجوں نے دِل کی دُنیااجاڑ کے رکھ دی ۔سات سمندرپار جانے والی بیٹی کے سامنے توضبط کیے کھڑی رہی لیکن جب گھرپہنچی تو مہمانوں کی موجودگی کے باوجودضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اورمیں جی بھرکے رودی ۔مجھے گھرکے درودیوار سے عجیب سی وحشت ٹپکتی ہوئی محسوس ہوئی اوریوں لگاکہ جیسے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
دو ،تین دِن اسی کیفیت میںگزرے اورپھر جب طبیعت ذراسنبھلی تو قلم تھا م لیاکہ قلم کاقرض ابھی باقی تھااور اُن اصحاب کابھی جوطوفانِ بادوباراں کی پرواہ کیے بغیرانتہائی خلوص سے اِس تقریب میںشریک ہوئے۔میںشکر گزارہوں محترم بھائی عطاء الحق قاسمی ،جناب مجیب الرحمٰن شامی ،بھائی رؤف طاہر ،محترم حفیظ اللہ نیازی ،محترم نجم ولی خاں، بھائی فرید احمد پراچہ، محترم احسان اللہ وقاص ،جسٹس(ر)ظفراقبال چودھری ، ناصرمحمودملک ،پی ایف یوجے کے محترم میاںرفعت قادری،محترمہ عمرانہ مشتاق ، پی ایف یوسی کے محترم عبد الماجدملک ،فرخ شہباز، نور الہدیٰ اوردیگر احباب کا جوبیٹی کے لیے اپنی ڈھیروںڈھیر دعاؤںکے ساتھ پہنچے ۔محترم صدیق الفاروق ،الطاف حسن قریشی ،سجادمیر اور ارشادعارف کی راہ میںطوفانِ بادوباراں سدِسکندری بَن کرکھڑا ہوگیا لیکن اُن کی دعائیں ہم تک پہنچ گئیں ۔محترم بھائی لیاقت بلوچ صاحب نے ننکانہ صاحب سے فون کرکے بتایاکہ وہ بارش کے طوفان میںپھنسے ہوئے ہیں لیکن اُن کی دعائیں بیٹی کے ساتھ ہیں۔
شکرگزار ہوںرب ِلَم یزل کی کہ جس نے ہمیںاِس فرض کی ادائیگی کے قابل بنایا اورایک دفعہ پھردِل کی گہرائیوںسے شکرگزار ہوںاُن تمام مہمانانِ گرامی کی جنہوںنے اِس تقریب میںشرکت فرمائی۔ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاسے ٹوٹارابطہ جب بحال ہواتوپتہ چلاکہ پاکستانی سیاست میںکئی طوفان آکر گزرچکے ، ایم کیوایم کے مرکزی دفترنائین زیروپر رینجرزنے چھاپامار کربہت ساجدیدترین اسلحہ برآمدکیا اورسینکڑوںکارکُن گرفتارہوئے ۔رینجرزکو قتل کی دھمکیاںدینے پرالطاف حسین کے خلاف کرنل طاہرمحمودکی تحریری درخواست پردہشت گردی کامقدمہ درج ہواجس پرجنابِ آصف زرداری نے ایم کیوایم کوصوبائی حکومت میںشامل کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے فرمایا”پیپلزپارٹی کڑے وقت میںایم کیوایم کوتنہا نہیںچھوڑے گی”۔
لیکن سارامعاملہ اُلٹ پلٹ تواُس وقت ہواجب پھانسی سے چندگھنٹے قبل ایم کیوایم کے ٹارگٹ کلرصولت مرزاکا ویڈیوبیان الیکٹرانک میڈیاکی زینت بنااپنے بیان میںصولت مرزانے ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین صاحب کوموردِالزام ٹھہراتے ہوئے کہاکہ اُس نے سارے قتل الطاف حسین کے حکم پرکیے اورالطاف حسین صاحب کی طرف سے سارے احکامات بابرغوری صاحب کے ذریعے ملاکرتے تھے ۔صولت مرزانے یہ بھی کہاکہ وہ پھانسی کی سزاسے معافی کاخواست گارنہیں لیکن اتناضرور چاہتاہے کہ اُس کی پھانسی کچھ عرصے کے لیے مؤخرکی جائے تاکہ وہ سارے رازافشاء کرکے اپنے گناہوںکا بوجھ کچھ ہلکاکرسکے ۔الطاف بھائی اورایم کیوایم کے اکابرین نے تواِن الزامات کوجھوٹ کاپلنداقرار دیالیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ الزامات نئے نہیںبلکہ اِن کی بازگشت توگزشتہ دوعشروں سے جاری ہے اور ہم تواپنے کئی کالموںمیں متحدہ کے عسکری ونگزکا ذکربھی کرچکے ۔حقیقت یہی ہے کہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکے بہت سے احباب ایم کیوایم کی سرگرمیوںسے واقف ہیںلیکن اِن کاذکر کرتے ہوئے اُن کے قلم تھرتھرانے لگتے ہیںاور زبانوںپر لکنت طاری ہوجاتی ہے لیکن اب شایدوہ وقت آن پہنچاہے جب دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوکر رہے گا ۔ وزارتِ داخلہ نے صولت مرزا کی پھانسی کو90 روزتک مؤخرکرنے کی سمری ایوانِ صدربھیج دی ہے جس پرتاحال کوئی فیصلہ نہیںہوا۔
صولت مرزاکو تواُس کے گناہوںکی سزاملنی ہی چاہیے ،آج نہیںتو 90 روزبعد سہی لیکن اگراِس معاملے کی تہ تک نہ پہنچاگیا توایسے صولت مرزاپیدا ہوتے ہی رہیںگے اورروشنیوںکا شہرکراچی خونم خون ہی رہے گا۔آج اگرحکومت اورفوج کراچی کی روشنیاںلوٹانے کے لیے ڈٹ چکے ہیںتو پھراُن کے بڑھتے ہوئے قدم رکنے نہیںچاہییں ۔ویسے حالات سے تویہی اندازہ ہوتاہے کہ اب کچھ نہ کچھ ہوکر ہی رہے گاکیونکہ شاطرانہ چالوںکے ماہرجناب آصف زرداری بھی اُلٹے پاؤںپھِر گئے اور پیپلزپارٹی کے اکابرین الیکٹرانک میڈیاپر زوروشورسے یہ بیانات دینے شروع کردیئے کہ جنابِ آصف زرداری نے تویہ کہاہی نہیںکہ ”پیپلزپارٹی کڑے وقت میںایم کیوایم کوتنہا نہیںچھوڑے گی”۔اب تونوبت یہاںتک آن پہنچی ہے کہ پیپلزپارٹی نے جنابِ آصف زرداری کی ہدایت پراب متحدہ قومی موومنٹ کی سندھ حکومت میںشمولیت کافیصلہ بھی مؤخر کردیاہے۔
اُدھر پرویزمشرف بھی اپنے ”طبلے سارنگی”کے ساتھ میدان میںاُتر آئے اوراُس سیاسی جماعت پربرس پڑے جسے وہ مُکّے لہرالہرا کراپنا دست وبازو قراردیتے رہے ۔اُنہوںنے کہا”ایم کیوایم پردہشت گردی پھیلانے کاتاثر پورے ملک میںتقویت حاصل کرچکاہے ۔ میںنے اپنے دَورِحکومت میںایم کیوایم کوبہت سمجھایاتھا جبکہ آج کل بہت کنفیوژن ہے ۔الطاف حسین کواِس بارے میںسوچنا ہوگاکہ ایم کیوایم پردہشت گردی کی چھاپ لگ چکی ہے ۔پنجاب ،سرحد ،ہرجگہ یہی تاثرہے ”۔ملک میںتیسری سیاسی قوت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میںپرویزمشرف صاحب نے کہا ”پیپلزپارٹی اورنوازلیگ چار، چاربار اقتدارحاصل کرچکے اوریوں ملک کابیڑا غرق ہوگیا ۔اب ایک نئی فورس کی ضرورت ہے اورمیں خودکو ایک بڑے رول کے حوالے سے دیکھ رہاہوں”۔ ہم سمجھتے ہیںکہ اگر پرویزمشرف صاحب کچھ محنت کریںتو”طبلے سارنگی”کے حوالے سے تواُن کاکوئی بڑارول ہوسکتاہے لیکن ملک کی خدمت کے حوالے سے نہیںکیونکہ اپنے دَورِ حکومت میںوہ ملک وقوم کی جو ”خدمت”کر چکے ہیںوہ کئی دہائیوںکے لیے کافی ہے۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر