تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
دریا کسی پہاڑ یا جھیل سے بہت سا پانی نکل کر خشکی پر دور تک بہتا چلا جاتا ہے تو اسے دریا کہتے ہیں دریا بذات خود مستقل بھی ہوتے ہیں اور معاون بھی ایک دریا دوسرے دریا میں جا گرے تو معاون کہلاتا ہے۔دنیا بھر میں دریائوں کی آگاہی کا عالمی دن 14 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند دریائوں کے بارے میں مختصر تعارف پیش ہے۔ دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم دریا ہے ۔ دریائے سندھ کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب سے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد دریا بھارت اور پاکستان کشمیر سے گزرتا ہوا صوبہ سرحد میں داخل ہوتا ہے ۔ صوبہ سرحد میں اسے اباسین بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ۔ دریائے سندھ کو شیر دریا بھی کہا جاتا ہے ۔ صوبہ سرحد میں دریا پہاڑوں سے میدانوں میں اتر آتا ہے اور اس کے بعد صوبہ پنجاب اور سندھ سے گزرتا ہوا کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔
دریائے پنجند پنجاب میں ضلع بہاولپور میں ایک دریا ہے ۔ دریائے پنجند پر پنجاب کے دریا یعنی دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے راوی، دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے پانچ دریائوں کا سنگم قائم ہوتا ہے۔ جہلم اور راوی چناب میں شامل ہوتے ہیں، بیاس ستلج میں شامل ہوتا ہے اور پھر ستلج اور چناب ضلع بہاولپور سے 10 میل دور شمال میں اوچ شریف کے مقام پر مل کر دریائے پنجند بناتے ہیں۔ مشترکہ دریا تقریبا 45 میل کے لئے جنوب مغرب میں بہتا ہے ـ اور پھر کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے شکسگام دریائے یارکمد کا ایک معاون دریا ہے ۔اسکے دیگر نام دریائے کلیچن اور دریائے میوزتگھ ہیں۔ یہ وادی شکسگام میں قراقرم پہاڑی سلسلے کے متوازی شمال مغربی سمت بہتا ہے ۔ دریا چین اور پاکستان کے درمیان سرحد بناتا ہے ۔ دریائے شگر گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ایک دریا ہے ۔یہ دریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے ۔جو وادی سکردو میں اس میں شامل ہوتا ہے۔
دریائے شیوک لداخ انڈیا سے نکلتا ہے اور بلتستان ضلع گانچھے سے بہتا ہوا دریائے سندھ میں گرتا ہے، اس کی لمبائی 550 کلومیٹر ہے۔ دریائے نیلم کشمیر میں دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے ۔ بھارت میں اسے دریائے کشن گنگا بھی کہتے ہیں۔ یہ آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں گرتا ہے۔ دریائے ٹوچی جسے دریائے گمبیلا بھی کہتے ہیں، افغانستان سے وزیرستان میں داخل ہو کر وادی داوڑ کو سیراب کرتے ہوئے تنگہ سے گزرتا ہوا بنوں میں داخل ہوتا ہے جہاں اسے گریڑا کا نام دیا گیا ہے ۔ دریائے پنجکورہ شمالی پاکستان میں ایک دریا ہے ۔ دریا سلسلہ کوہ ہندوکش میں لات کے مقام سے نکلتا ہے ۔ یہ دیر بالا اور پھر دیر زیریں سے بہتے ہوئے مالاکنڈ کے قریب دریائے سوات میں شامل ہو جاتا ہے ۔ اس کا نام فارسی سے ماخوذ ہے۔ پنج یعنی پانچ اور کورہ یعنی دریا۔دریائے پونچھ جموں و کشمیر، بھارت اور آزاد کشمیر، پاکستان کا ایک دریا ہے۔ یہ شمال مغرب کی طرف بہتا ہے ۔ اس کے بعد یہ جنوبی سمت بہتے ہوئے منگلا جھیل میں داخل ہو جاتا ہے ۔ اس کے دو معاون سواں اور بیتار ہیں۔
دریائے ڈوری جسے دریائے لورا بھی کہا جاتا ہے، افغانستان اور پاکستان کا ایک دریا ہے ۔صوبہ قندھار، افغانستان میں 320 کلومیٹر اور پھر بلوچستان، پاکستان میں بہتا ہے ۔ اسے پاکستان میں لورا کہا جاتا ہے ، افغانستان میں داخل ہونے کے بعد اسکا نام کدھنائی ہے اور اسپن بلدک میں اسے ڈوری کہا جاتا ہے۔ دریائے ڑوب (ژوب) بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں واقع ہے ۔ دریا کا نام اصل ایران زبان سے ہے ۔ پشتو زبان میں، ڑوب کا مطلب بہتا ہوا پانی ہے ۔دریائے ڑوب شمالی بلوچستان میں زمین کو سیراب کرتا ہے ۔دریائے بیاس کوہ ہمالیہ سے نکلتا ہے اور مشرقی پنجاب ”بھارت” کے اضلاع امرتسر اور جالندھر کے درمیان سے گزرتا ہوا فیروز پور کے قریب دریائے ستلج سے مل جاتا ہے ۔326 ق م میں سکندر اعظم کی فوجیں یہاں آکر رک گئیں تھیں۔دریائے جہلم کوہ ہمالیہ میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے ۔سکندر اعظم اور پورس کی لڑائی اسی دریا کے کنارے لڑی گئی تھی۔
دریائے حب پاکستان میں کراچی کے قریب واقع ایک چھوٹا دریا ہے ۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کوہ کیرتھر سے شروع ہوکر بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔یہ دریا صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے مابین سرحد بناتا ہے ۔ 1981ء میں اس دریا پر ایک ڈیم بنایا گیا جسے حب ڈیم کہتے ہیں۔ یہ ڈیم لسبیلہ کے لیے آبپاشی اور کراچی کے لیے پینے کا پانی فراہم کرتا ہے۔ دریائے استور دریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے جو کہ وادی استور میں سے بہتا ہے دریائے باڑہ کی ابتداء وادی تیراہ، تحصیل باڑہ، خیبر ایجنسی سے ہوتی ہے ۔ یہ دریائے کابل جو کہ ورسک ڈیم سے نکلتا ہے میں شامل ہونے کے بعد پشاور میں داخل ہوتا ہے ۔
دریائے توی ایک ایسا دریا ہے کہ جموں شہر میں بہتا ہے ۔ عام طور پر بھارت میں دیگر دریاؤں کے طرح دریائے توی بھی مقدس سمجھا جاتا ہے ۔جموں شہر کے بعد یہ پاکستان میں پنجاب کے دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے ۔دریائے جندی جسے کوٹ اور منظری بابا کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، پاکستان کے شمالی علاقے مالاکنڈ، چارسدہ، خیبر پختونخوا سے شروع ہونے والا ایک دریا ہے۔
دریائے روپل شمالی پاکستان میں روپل گلیشیر سے شروع ہونے والا ایک برفانی دریا ہے ۔ یہ دریائے استور میں مل جاتا ہے ۔دریائے شنگھو لداخ کے علاقے میں بہتا ہے ۔ دریائے شنگھو بھارت سے پاکستان میں آزاد کشمیر کے مقام پر داخل ہوتا ہے۔ دریائے چناب ،چن اور آب سے مل کر بنا ہے چن کا مطلب چاند اور آب کا پانی ہے ،یہ بھارت کی ریاست ہماچل سے آنے والا ایک اہم دریا ہے ۔یہ جموں کشمیر سے بہتا ہوا پنجاب سے گزرتا ہے اور تریموں کے مقام پر جہلم سے مل جاتا ہے ،پھر راوی کو ملاتا ہے اور اوچ شریف کے مقام پر ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے ۔ہیر رانجھا ،سوہنی ماہی وال کی محبت کی داستانیں انہی دریائوں کے اردگر گھومتی ہیں ،پنجابی تہذیب انہی دریائوں کے درمیان ہے۔
دریائے راوی کو لاہور کی پہچان قرار دیا جاتا تھا لیکن یہ دریا اب صرف شہر بھر کا گندہ پانی سمیٹ رہا ہے حکومت پنجاب نے راوی میں گندہ پانی پھینکنے کیلئے کروڑوں روپے کے پمپنگ سٹیشن بنا رکھے ہیں۔ ہماری کسی بھی حکومت نے دریائوں کے بارے میں نہیں سوچا یعنی پاکستان کے مستقبل کے بارے ،اس وقت ہمارے دریائوں پر بھارت نے بے شمار ڈیم بنا لیے ہیں ،بھارت جب چاہتا ہے ان میں پانی چھوڑ دیتا ہے ،جس کے سیلاب سے سینکڑوں دیہات بہہ جاتے ہیں ،بھارت مسلسل معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی کررہا ہے ۔لیکن حکومت (جو بھی رہی ہیںیا ہیں) ان کے لیے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ان کی طرف سے مسلسل خاموشی ہے ۔ حالانکہ بھارت نے گذشتہ کئی دہائیوں سے آبی جارحیت شروع کر رکھی ہے۔
ہمارے دریاؤں پر بھارت نے تقریباً 14 ڈیم بنا لئے ہیں۔آزادی کے بعد بھارت نے 102 ڈیم بنائے جبکہ ہمارے ہاں صرف دو ڈیم منگلا اور تربیلا ہی بن سکے ہیں، جبکہ تیسرا کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو چکا ہے ۔اصل میںپاکستانی لیڈروں کے لیے پاکستان کے مستقبل کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور بھارت کے لیڈروں کو اس کا احساس ہے کہ مستقبل میں پانی کتنی اہمیت اختیار کر جائے گا ۔اس لیے اس نے ان دریائوں پر بھی ڈیم بنا لیے ہیں، جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے ۔اور علاوہ ازیں بھارت بذریعہ پائپ پاکستان کے دریائوں سے چوری کر رہا ہے ۔حالات یہی رہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ جنگ پانی پر ہونے کا خدشہ ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال