ٹوکیو: ٹیکنالوجی اور روبوٹس کی سرزمین جاپان سے خبر آئی ہے کہ وہاں مصںوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) پر مبنی پہلے امیدوار نے میئر کے مقابلے میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔
دنیا بھر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ روبوٹس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس انسانوں کی ملازمتوں کو لے اڑیں گے اور اس سے بے روزگاری بڑھے گی لیکن کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ جاپان میں مصنوعی ذہانت پر مشتمل ایک فرضی شخصیت نے شہر کے میئر کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔
اگرچہ اب بھی مصنوعی ذہانت کو اونچے عوامی عہدوں کےلیے موزوں قرار دینے کا کوئی قانون نہیں بن سکا ہے تاہم ٹوکیو کے نواحی علاقے ٹاما سٹی میں بلدیاتی امور میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کردار کو بڑھانے کی کوشش کی ہے اور اسے ’آرٹیفیشل انٹیلی جنس میئر‘ یا ’اے آئی میئر‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ انسانی افسران کی جگہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر بلدیاتی امور کا فیصلہ کریں گے اور اس طرح بہت شفاف اور منصفانہ اور غیر جانب دارانہ فیصلے کیے جاسکیں گے جن سے ہر باشندہ یکساں طور پر مستفید ہوسکے گا۔
میئر بننے کے امیدوار میشی ہیٹو ماتسوڈا نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں پہلی بار مصنوعی ذہانت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بنے میئر کے ذریعے شفاف اور متوازن انداز میں پہلے عوامی ڈیٹا جمع کیا جائے گا اور اس کے بعد بہت تیزی سے فیصلے کیے جائیں گے جو اگلی نسل تک کےلیے مفید ہوں گے۔
44 سالہ ماتسوڈا نے 2014 میں ٹاما سٹی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اس بار وہ مصنوعی ذہانت کے ایک نمائندے یا اوتار کی طرح کام کریں گے۔ ان کے فیصلے اعلیٰ کمپیوٹر پروگرام کریں گے اور وہ شہر پر ان کا اطلاق کریں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کمپیوٹر الگورتھم کے فیصلوں سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر میں جگہ جگہ روبوٹک میئر کے پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ ان پوسٹروں میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک مصنوعی ذہانت والے میئر کو ووٹ دیں تاکہ وہ ان کے مسائل حل کرسکیں۔ تاہم بعض افراد نے اسے میشی ہیٹو ماتسوڈا کی ایک چال قرار دیا ہے تاکہ لوگ انہیں میئر منتخب کرسکیں اور انہوں نے سہارا کسی کمپیوٹر الگورتھم یا اے آئی کا لیا ہے۔
اب یہ بات میئر کے انتخابی نتائج کے بعد ہی معلوم ہوسکے گی کہ جاپانی لوگ کسی مشین پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں۔