تحریر:شاہد شکیل
تیز ترین،ذہین ،فرمانبرداراور تاحیات زندہ رہنے والی مشین جسے روبوٹ کہتے ہیں دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کے راستے میں کوئی روکاوٹ نہیں لیکن کیا انسان کی طرز پر بنائی جانے والی اس مشین سے انسان خوفزدہ ہیں ؟اس مشین کو اب کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ یہ ہی مستقبل میں دنیا کے حاکم بن جائیں گے انہیں لاکھ دھکے دئے جائیں گھونسوں کی بارش کی جائے بیٹ، ہاکی اور لاٹھیوںسے پیٹا جائے پھر بھی گرکر کھڑے ہو جائیں گے کیونکہ انہیں اپنے فرائض انجام دینے کیلئے ہائی ٹیکنالوجی سے فکس کر دیا گیا ہے۔امریکی کمپنی بوسٹن ڈائنامکس نے گزشتہ ہفتے روبوٹس کی صلاحیتوں پر ایک ویڈیو فلم پیش کی جس میں ان کے تیار کردہ روبوٹ ایٹلاس کو منظر عام پر لایا گیا جسے دیکھ کر کچھ ناظرین نے اچھا تاثر نہیں لیا لیکن نئی جنریشن میں یہ مشین انتہائی مقبول ہورہی ہے ۔ٹائیٹینم اور ایلو مینیم کے بنے انسانوں سے مشابہت رکھتے یہ روبوٹ کسی سرکس کے بندر کی طرح سوشل نیٹ ورک پر بھی اپنے کرتب دکھاتے رہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں تھے لیکن یہ لوہے کے بندر بہت جلد دنیا پر قبضہ کر لیں گے،کمپنی کا کہنا ہے۔
ہمیں اس میٹل جنریشن کا خیر مقدم کرنا چاہئے کیونکہ مستقبل میں ہم ان کے ماتحت اپنی زندگی بسر کریں گے باالفاظ دیگر یہ ہمارے مالک یا حاکم کہلائیں گے۔بوسٹن ڈائنامکس کے چئیر مین مارک رائیبرٹ کا کہنا ہے اصل میں ہم نے روبوٹس محض فوجی مقاصد اور دیگر عوامل کے لئے تیار کئے تھے مثلاً ملٹری آپریشن میں اپنا کردار ادا کر سکیں یا تباہ شدہ علاقوں میں صفائی وغیرہ کے کام آ سکیں لیکن طویل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مشین دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب روبوٹ روزمرہ زندگی میں انسانوں کے ساتھ مل جل کر کام کریں گے اور ایسا مقام حاصل کریں گے جو دنیا میں زندگی کا حصہ بن جائے گا۔فیس بک کے بانی مارک زوکر برگ ہمارے اس فیوچر پلان سے مطمئن ہیں نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے اور خاص طور سے گزارش کی ہے کہ انہیں بھی ایک ذہین روبوٹ درکار ہے جو ان کی بیٹی کی دیکھ بھال کر سکے،برلن میں ہونے والی ایک تقریب میں زیورچ یونیورسٹی کے تیار کردہ روبوٹ کا مظاہرہ مارک زوکر برگ نے دیکھا کہ جس میں وہ ایک چھوٹے بچے کا پیمپرز کسی ماہر آیا یا نرس کی طرح تبدیل کرتا ہے ۔
سب مہمانوں کے دل جیت لئے ،روبوائے نامی یہ روبوٹ یعنی ہیو مینائڈ مشین انسانوں کی طرح اپنی نیلی آنکھیں گھماتا ہے اور تالیوں کی گونج میں اپنے لوہے کے ہاتھوں سے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہے اس کا قد کاٹھ انسان جیسا اور وزن تقریبا اسی کلو ہے یہ روبوٹ بہت متاثر کن اور نئی جنریشن میں مقبول ہو چکا ہے کیونکہ اس میں جو انسٹرومنٹس ایڈجسٹ کئے گئے ہیں تقریباً وہی یا ان سے مشابہت رکھتے ہوئے کئی انسٹرومنٹس مستقبل کی ہائی ٹیک کاروں میں بھی استعمال کئے گئے ہیں مثلاً سٹیریو کیمرے جو راستے میں حائل روکاوٹوں کا پتہ لگاتے ہیں جدید لیزر ٹیکنالوجی کیمروں کو مخصوص طریقے سے بذریعہ سیٹلائٹ امداد پہنچاتی ہے اور چوبیس گھنٹے یہ تمام اوزار سٹینڈ بائی رہتے ہیںعلاوہ ازیں اس میٹل مین کو بیرونی بیٹری سے توانائی حاصل ہوتی رہے گی ،ماہرین کا کہنا ہے اس سے قبل جو روبوٹ تیار کئے گئے انہیں بجلی کی تاروں سے منسلک کیا جاتا تھا۔
لیکن نئے روبورٹ کی توانائی کا نظام موجودہ دور میں استعمال ہونے والے سمارٹ فونز یا لیپ ٹاپ سے مشابہت رکھتا ہے جسے چند برسوں بعد بذریعہ سیٹلائٹ منتقل کر دیا جائے گا جس کے لئے ان میں ہزاروں گنا تیز چپس اور دیگر ہائی ٹیک ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی،ابتدائی مرحلوں میں یہ روبوٹ تباہ شدہ علاقوں مثلاً جنگوں کے بعد یا قدرتی آفات سے متاثر زلزلہ یا سیلابی علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیں گے ۔ کئی سائنسدانوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ایٹلس کیوں اور کیسے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے کیا انسانوں کو اس کی ضرورت ہے ؟ کیا یہ روبوٹ صرف سامان اٹھانے کے کام آئیں گے ؟ جی نہیں ،روبوٹ کے بانی کا کہنا ہے یہ مشین نہ صرف سامان اٹھائے گی بلکہ پیزا بھی ڈیلیور کرے گی لیکن ہم اسے پیزا بوائے نہیں بنانا چاہتے بلکہ انسان کی بھلائی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، مثلاً ہمارے روبوٹ آج بھی ان علاقوں میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جہاں ایک انسان کی جان کو خطرہ ہے۔۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے ہمیں ماضی کو ٹٹولنے کی ضرورت نہیں کہ سائنس نے کتنی تیزی سے ترقی کی ہے بلکہ ایک نظر گزشتہ برس پر ہی ڈالی جائے کہ موسم گرما میں امریکی محکمہ دفاع کے ہائی ٹیک ڈیپارٹمنٹ میں اکیس روبوٹیک چیلنج متعارف کروائے گئے اور انہیں تباہ شدہ علاقوں میں تعینات کیا گیا جہاں انکی صلاحیتوں پر دوبارہ ریسرچ کی گئی مثلاً وہ کوڑا کرکٹ کیسے جمع کرتے ہیں کسی زخمی انسان کو فرسٹ ایڈ کیسے پہنچاتے ہیں آرمی کے ہیوی ٹرک کیسے چلاتے ہیں وغیرہ اور ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ ایک انسان اور روبوٹ کی حرکات و عوامل میں کوئی فرق نہیں یعنی ایک رئیل سائنس فکشن فلم کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے
،تاہم انسان اور انسان کی بنائی ہوئی مشین کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہم روبوٹ میں سانس نہیں ڈال سکتے لیکن ہائی ٹیک توانائی سے انسان جیسا کام ضرور لے سکتے ہیں کیونکہ انسان کا مقابلہ دنیا کی کوئی مشین نہیں کر سکتی،کئی ٹیسٹ میں روبوٹ فیل بھی ہو چکے ہیں کیونکہ کئی بار اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے انہیں پینتالیس منٹ صرف ہوتے ہیں جبکہ وہی سوال یا عمل ایک بچہ تین منٹ میں حل کر لیتا ہے ۔ماہرین اور سائنسدانوں کا کہنا ہے یہ بات درست ہے کہ مستقبل میں روبوٹ ہی دنیا کا نظام سنبھال لیں گے لیکن انہیں ان مقام تک پہنچانے میں انسان کی عقل کا کمال ہے۔
تحریر:شاہد شکیل