میانمار کے صوبہ رخائن میں جہاں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور وہ اپنی جان بچانے کے لئے بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں وہیں روہنگیا کے ہندو بھی در بدر ہونے لگے۔
اب تک سینکڑوں ہندو شدت پسندوں کا شکار ہو چکے ہیں اور جان بچانے کی فکر میں مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی بنگلہ دیش کا رخ کررہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں میں چار لاکھ کے قریب بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا میں 14 سو سے زائد ہندوبھی شامل ہیں۔ میانمارمیں ہندؤوں کی کل آبادی صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی 5 فیصد ہے ۔ روہنگیا ہندو بھی رخائن میں مسلح افراد کی جانب سے لوٹ مار اورتشدد کا شکار ہیں۔ہندو خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں اوراب تک ان کی انگنت بستیاں جلائی جاچکی ہیں۔
جو ہندو پہاڑی راستوں اور جنگلات کے ذریعے بنگلادیش پہنچنے میں کامیاب ہو ئے ان کے پاس الم و غم کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے مہاجر کیمپ کی ایک بے گھر خاتون نے اپنی داستان الم سناتے ہوئے بتایا کہ اس کا گھر بارجلادی گیاحتیٰ کہ ان کے شوہر اور سسرالیوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیاگیا۔ بیشتر خواتین کے داستان اتنی ہی دکھ بھری ہے ۔ایک خاتون کا کہنا تھا کہ میرے شوہر کی سنار کی دکان تھی ، کچھ نقاب پوش لوگ دکان میں داخل ہوئے اور انہوں نے مال و مطع لوٹ لیا۔
انہوں نےمزید بتایا ’میرے شوہر اور بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ نقاب پوش افراد نے سونے کے مزید زیورات مانگے۔ انہوں نے مزید زیورات بھی ان کے حوالے کردیئے لیکن اس کے باوجود وہ میرے شوہر کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر پہاڑیوں کی طرف لے گئے۔‘‘ خاتون نے مزید بتایا کہ جب میں اپنے بقیہ خاندان کے ساتھ میانمار سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی تو سیکڑوں روہنگیا مہاجرین کے ساتھ میں نے اپنے شوہر کی خون میں لت پت لاش دیکھی۔
ایک اور ہندو نے بتایا کہ ہجرت کی غرض سے جب انہوں نے سفر شروع کیا تو ان کے ساتھ 120 خاندان تھے جو پناہ لینے بنگلہ دیش جا رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ نقا ب پوشوں نے انہیں اپنے ہی گھر میں کم از کم سات دن تک نظر بند کر کے رکھا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں کسی بھی ہندو پناہ گزین کو بنگلہ دیش میں داخل ہوتے نہیں دیکھا گیا مگر 25 اگست کے بعد سے صورتحال مختلف ہے۔