تحریر : اختر سردار چودھری
اصل نام سید احمد شاہ علی لیکن احمد فراز کے نام سے مشہور ہوئے ۔ 12 جنوری 1931ء کوہاٹ( پاکستان) میں پیدا ہوئے ۔احمد فراز کسی تعارف کے محتاج نہیں۔انہوں نے تعلیم کا آغاز کوہاٹ سے کیا ۔ان کے والد پیشے کے لحاظ سے اکاونٹینٹ تھے ۔وہ ایک سخت مزاج اور ڈسپلن برقرار رکھنے والے والد تھے گھر لوٹتے ہوئے تا خیر ہو جاتی ۔ ان کے والد بیٹے کے انتظار میں ہوتے ۔ دروازہ کھولتے ہوئے باتوں اور ہاتھوں سے ان کو خوش آمدید کہا جاتا ۔والد کی سخت گیری کا ان کی نفسیات پراثر پڑا ۔ جب وہ نہم یا دہم میں تھے تو اپنا پہلا شعر لکھا تھا ۔ان کے بھائی ان کے لیے کمبل لائے تھے،جس بارے گلہ تھا کہ میرے لیے اچھے کپڑے نہیں لائے۔
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
ابتدائی تعلیم کے بعد پشاور منتقل ہو گئے۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے ۔جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ”تنہا تنہا ”شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ”درد آشوب ”چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ ”ملا۔یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا ۔آپ 2006 ء تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے۔
ایک غریب صحافی ان کے ارادت مندوں میں سے تھا۔ایک برسات میں ایسی موسلاد ھار بارشیں ہوئیں کہ اس صحافی کے گھر کی چھت اور ایک دیوار گرگئی ۔وہ پریشانی میں پھر رہاتھا کہ فرازصاحب سے ملاقات ہوگئی۔جب فراز صاحب نے اس کی پریشانی کا احوال سنا تو اسے آٹھ لاکھ روپے کی بلا شر ط امداد د دی خووداری پر حرف نہ آئے ۔ان کو فوج میں ملازمت کا بہت شوق تھا ،لیکن یہ خواہش ان کی پوری نہ ہو سکی۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ”اکادمی ادبیات”کے پہلے ڈائریکٹر بن گئے ۔ جنرل ضیا الحق مارشل لاء کے دور کے خلاف کافی نظمیں لکھیں ،جن کو بہت شہرت ملی۔شاعروں میں یہ کلام پڑھنے پر ان کو حراست میں لے لیا گیا،جسکے بعد ان کو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔مشرف دور میں ان کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
ان کے چند اشعار دیکھیں۔
اب کے ہم بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ تو آغاز کرے
ایک انٹریو میں وہ اپنے لکھنے کے بارے میں بتاتے ہیں، زیادہ تو میں کبھی بھی نہیں لکھتا تھا۔ کبھی لکھنے پہ آتے ہیں، تو دو چار چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں،کبھی چھ چھ مہینے کچھ نہیں لکھا جاتا، زبردستی نہیں کرتے، طبیعیت کے ساتھ اور شعر کے ساتھ۔ تو وہی میرے لکھنے کی رفتار ہے ۔انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی ،ہندی،یوگوسلاوی،روسی،جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں ۔جو اعزازات ان کو ملے، ان میں آدم جی ا دبی ایوارڈ ،اباسین ایوارڈ ،بھارت میں فراق گورکھ پوری ایوارڈ ،ٹاٹا ایوارڈ سے نوازا گیا ،اس کے علاوہ ہلال امتیازستارہ اورامتیازنگار ایوارڈ بھی ان کو ملا ۔ان کے تین بیٹے ہیں سعدی ،شبلی،سرمد فراز ہیں ان کی وفات 25 اگست، 2008 (عمر 77 سال)کو ہوئی ،اسلام آباد کے قبرستان میں مدفن ہیں۔ ان کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
۔تنہاتنہا(1958)،دردآشوب(1966)،میرے خواب ریزہ ریزہ (1972)،جاناں جاناں (1976)،بے آواز گلی کوچوں میں (1982)نابینا شہر میں آئینہ (1984)سب آوازیں میری ہیں (1985)پس انداز موسم (1989)بودلک (1994)ان کے تما م شعری مجموعے کلیات کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔یوں تو ان کی ساری شاعری ہی بہترین ہے، لیکن ایک شعر تو ضرب المثل کی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔
شکوہَ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
پاکستان اور انڈیا کے نامور گلوکاروں نے اس کی شاعری گائی ،جن میں لتامنگیشکر ، جگجیت ، ملکہ ترنم میڈم نورجہاں،وغیر ہ شامل ہیں،ان کو رومانی شاعری کہا جاتا ہے، وہ خود کہتے ہیں۔ میں مانتا ہوں رومانس میری شخصیت کا ایک حصہ ہے اور میری شاعری میں اس کا غلبہ ہے لیکن زیادہ موضوعات ہیں کہاں ۔ کیا آپ مجھے محبت کے علاوہ کوئی موضوع بتا سکتے ہیں ۔ زندگی میں ہی ان کو شہرت مل گئی تھی ،لیکن مرنے کے بعد تو ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔
میں خوش ہو ں راندہ افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر
جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا ،جس کا موضوع” احمد فراز کی غزل ”تھا۔بہاولپور میں بھی” احمد فراز ۔فن اور شخصیت ” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔
تحریر : اختر سردار چودھری