تحریر : یاسر قدیر
دو دن ھوئے اٹلی کے شہر روم میں ہوں، یہاں جا بجا قدیم رومن تہذیب کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں،کلوزیم اکھاڑا کا بھی تفصیلی جائزہ لیا روم کے بادشاہوں نے ان کلوزیم میں دس دس لوگوں کو ہتھیار دے کر چھوڑ دیا جاتااور ان لوگوں کو پابند کیا جاتا کہ قتل کریں یا قتل ہو جائیں،یہ لوگ ایک دوسرے کے جسموں کو گوشت کے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتے اور لوگ اس پر تالیاں بجاتے،بات اس پر بھی نہ ختم ہوتی بادشاہ وقت اپنی درندگی کی تسکین اپنے مخالفین کو جنگلی جانوروں سے لڑا کر کرتے تھےاور پھر ان غلاموں پر بھوکے شیر چھوڑے جاتے ،کلوزیم میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں گونجتیں تو بادشاہ قہقہہ لگاتے۔
پھر اسی روم کے باسیوں نے ایک طویل جدجہد کے بعد ان ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کی،اسی روم میں جب ہر طرف آگ لگی تھی تو بادشاہ نیرواس وقت چین کی بانسری بجا رہا تھا،اور کچھ اسی سے ملتی جلتی صورت حال وطن عزیز پاکستان کی نظر آتی ہے ایک طرف ملک سیلاب کی تباہ کاریوں اور لوڈ شیڈنگ سے عوام کا جینا محال ہوا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں کی طرز حکمرانی سے لگتا ہے جیسے ہر طرف امن،سکون اور خوش حالی کا دور دورہ ہے حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں سے لگتا ہے جیسے پاکستان میں اس وقت کوئی ہنگامی صورتحال ہی نہیں۔
سونے پے سہاگہ خیر سے اپنی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے کیا ہے اور رومن تاریخ کی یاد تازہ کر دی ہے یعنی حکمران بھی خود،منصف بھی خود اور کوتوال بھی خود تو پھر ایسے ہی اندھے انصاف کی توقع کی جا سکتی تھی یعنی بقول جوڈیشل کمیشن کے کسی قسم کی کوئی دھاندلی ہوئی ہی نہیں،بقول شخصے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے،یعنی الیکشن والے دن پورے پاکستانی میڈیا نے جس طرح جگہ جگہ دھاندلی کے مناظر دکھائے۔
جس طرح پورے پاکستان سے لوگوں نے ازخود سوشل میڈیا پر دھاندلی کی ویڈیوز بنا کر چڑھائیں کیا وہ ان معزز جج صاحبان کو نظر نہیں آئیں یا انہیں دیکھنے کے لیے کوئی” طلسماتی “سرمہ لگانے کی ضرورت تھی ،جہاں جہاں بھی کوئی انتخابی حلقہ کھولا گیا وہاں سے حیران کن نتائج سامنے آئے،کہیں بہت بڑی تعداد جعلی ووٹوں کی تھی تو کہیں بہت بڑی تعداد ڈبل ووٹوں کی تھی،کہیں پر فارم پندرہ نہیں تو کہیں ووٹروں کا اندراج ہی نہیں،غرض کہ کتنے ہی حلقے ایسے تھے جن پر الیکشن ٹریبونلز یا عدالتوں نے جیتنے والے امیدوار کے مخالف فیصلے دیے تو کیا کمیشن کو تقیقت کرتے وقت یہ ساری چیزیں نظر نہیں آئیں؟اس کا مطلب جن عدالتوں نے یا ٹریبونلز نے جو فیصلے پہلے کئے وہ غلط تھے یا پھر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ غلط ہے؟۔
آفرین ہے عمران خان پر کہ انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے فیصلہ آنے سے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ جو بھی فیصلہ آئے گا ہمیں منظور ہو گا اور اپنی اس بات کی لاج رکھتے ھوئے انہوں نے اس “اندھے” فیصلے کو بھی تسلیم کر لیا حالانکہ ان ظالم ججوں نے اس فیصلے کو لکھتے وقت جانب داری اور اندھے پن کی انتہا کر دی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے۔
مجھے اپنے خدا پر پورا یقین ہے کہ سچ کبھی چھپتا نہیں اور ایک نہ ایک دن سامنے آ کر ہی رہتا ہے،آج یہ حکمران اور اس کے کاسہ لیس جتنے مرضی خوشی کے شامیانے بجا لیں،جتنا مرضی عمران خان پر لعن تعن کر لیں سچائی خود بخود سامنے آ جائے گی عوام کو ایک دن خود احساس ہو جائے گا کہ ان حکمرانوں نے ان کے ساتھ کتنا بڑا دھوکہ اور فراڈ کیا تھا آخر میں صرف ایک بات عمران خان سے کہنا چاہوں گا کہ خان صاحب ،ہم آپکے ساتھ ہیں۔
تحریر : یاسر قدیر