پہلے ایک دفعہ جاوید میاں داد نے ایک وظیفہ عمران خان کو بتایا تھا جب عمران بھول گئے تو جاویدنے یاد کرایا۔ میڈیا نے سنا۔ ہم نے بھی سنا۔
ایاک نعبدو و ایاک نستعین۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے امداد چاہتے ہیں۔ اس پر تو عمل عمران نے کیا ہے۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
میں نے حکومت کے کسی آدمی میں غیرت نام کی چیز دیکھی ہے تو وہ چودھری نثار علی خان ہیں۔ وہ غیور سیاستدان ہیں۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی انا پارٹی لیڈر کی رضا میں فنا ہو جاتی ہے۔ اور وہ راضی برضا ہو کر وقت گزارتے ہیں۔ وزیر شذیر بھی بن جاتے ہیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ نواز شریف کی کابینہ میں وزیر ایک ہی ہے اور وہ چودھری نثار علی خان ہے وہ ایسے وزیر نہیں جو دوستوں کے کام وغیرہ بھی کر دیتے ہیں۔ کوئی چھوٹا موٹا کام اور کوئی جائز کام بھی نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ کوئی بات ہے تو وہ برادرم نواز رضا سے پوچھ لیں۔ اس کے باوجود ہم چودھری نثار سے محبت رکھتے ہیں۔ ہم ان کو دوست رکھتے ہیں۔ شاید وہ بھی ہمیں دوست سمجھتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف سے بھی سچی سیدھی بات کر لیتے ہیں۔ نواز شریف بھی مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔ وہ چودھری نثار کا خیال رکھتے ہیں۔ رہی شہباز شریف کی بات تو ان کا مزاج ذرا مختلف ہے۔ اور چودھری نثار کے ساتھ ان کی بڑی دوستی ہے؟ نواز شریف ایک ہی طرح کے آدمیوں کو نوازتے رہتے ہیں۔
امید ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان آئیں گے تو برادرم توفیق بٹ کو ضرور نوازیں گے۔ میری گذارش بٹ صاحب سے ہے کہ وہ بیرون ملک کوئی منصب نہ لیں۔ آدھے سفیر تو وہ ہو چکے ہیں اپنے ملک کا بھی ان پر کچھ حق ہے۔ بڑے دن ہوئے کہ ان سے رابطہ نہیں ہے۔ اللہ کرے وہ اپنے معاملات میں خوش و خرم ہوں۔ ڈاکٹر عامر عزیز نے مجھ سے کہا تھا کہ بٹ صاحب کہیں ملیں تو میرا بھی سلام عرض کر دیں۔ مجبوراً کالم کے ذریعے ان کا سلام بھی عرض ہے۔
سخی سرور ڈیرہ غازی خان سے غلام سرور سے ٹیلی فون کے ذریعے میرا رابطہ ہے۔ وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہے مگر ایک پوسٹ آفس میں معمولی ملازمت کر رہا ہے۔ دکھی انسانیت کا درد رکھنے والوں کی یقیناً اس دنیا میں کمی نہیں۔ اگر کوئی اہل درد اس کے لیے ایک موٹر وہیل چیئر کا اہتمام کر دے تو وہ اپنے پہاڑی علاقے میں آسانی سے اپنی نقل و حرکت جاری رکھ سکے گا۔