counter easy hit

موٹو گینگ اور بابا رحمت کا راستہ

احسن چودھری کو لگتا ہے کہ اس کائنات کی تمام ظاہر اور مخفی قوتیں مل کر بالخصوص اس کے لیڈر اور بالعموم اس کی جماعت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔

میرے گلے میں خراش تھی۔ ڈاکٹر نے کہا گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرو۔ میں نے پانی گرم کرنے کیلئے چولہے پر رکھا ہی تھا کہ اچانک آواز آئی “پھر سازش! پھر سازش”، گھبرا کر دیکھا تو چودھری صاحب باورچی خانے کے دروازے میں کھڑے آگ بگولا ہو رہے تھے۔ کچھ دیر ہکا بکا رہنے کے بعد عرض کی، “کیا ہوا چودھری صاحب؟ کس سے بات کر رہے ہیں؟”

“یہاں تمہارے علاوہ کوئی ہے؟”

“نہیں”

“تو پھر ظاہر ہے تم سے ہی مخاطب ہوں، میں کوئی پاگل تو ہوں نہیں کہ اپنے آپ سے باتیں کروں گا”

“لیکن آپ تو کسی سازش کا تذکرہ کر رہے تھے”

“او ہیلو! میں تذکرہ نہیں کر رہا تھا، سازش اور سازشی کو رنگے ہاتھوں پکڑ رہا تھا! سمجھ آئی؟”

“قسم سے نہیں آئی۔۔۔۔۔ بالکل نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہاں تو میرے سواء کوئی ہے ہی نہیں اور کم از کم میں کوئی سازش نہیں کر رہا تھا”

“اچھا! یہ سازش نہیں تو اور کیا کر رہے ہو؟” چودھری صٓحب چولہے پر دھرے پانی کی جانب اشارہ کرکے گویا ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے اپنا آئی فون نکالا اور ابلتے پانی کی تصاویر کھینچنے لگے، کچھ مجھ سمیت اور کچھ میرے بغیر۔

“ارے ارے یہ کیا کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں چودھری صاحب؟ کہیں آپ پاگل تو نہیں ہو گئے؟ میں تو غراروں کیلئے پانی گرم کر رہا ہوں۔ اس میں بھلا سازش کہاں سے آ گئی؟”

“او ہیلو! یہ فلمیں کرانا کسی اور کو۔۔۔۔ تم یہ پانی اس لئے ابال رہے ہو تاکہ عین الیکشن سے پہلے تم اس کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال کر کہو کہ دس سال ہو گئے شہباز شریف کو حکومت کرتے لیکن پنجاب میں آج بھی لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں! او تم ہمارے ووٹر توڑنا چاہتے ہو۔۔۔۔ تم ہمارے مخالفوں سے ملے ہوئے ہو,جبھی ایسا کر رہے ہو۔۔۔ حالانکہ اگر تم غیرجانبداری سے سوچتے تو تمہیں سمجھ آتی کہ ان پائپوں میں ستر سال کا گند ہے۔ اب میاں صاحب بھلا دس سال میں ستر سال کا گند کیسے صاف کر سکتے ہیں؟”

چودھری صاحب فُل تپے ہوئے تھے۔ میری زبان گنگ تھی۔ اچانک افتاد پر دم بخود سوچ رہا تھا, کیا بولوں؟ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ اور پھر چودھری صاحب کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ سمجھنے سمجھانے کی حد سے آگے نکل چکے ہیں۔ بے بسی سے پانی کے برتن میں جھانکا تو سارا پیندا ذرات، اور بالائی تہہ جھاگ سے بھری ہوئی تھی۔ بے اختیار منہ سے نکلا، ’اوہ! یہ تو واقعی بہت گندا ہے! اتنی مٹی! اتنی جھاگ!‘

“ہا! ہا! ہا! دیکھا! دیکھا! مہرہ پکڑا گیا! ایک اور سازش بے نقاب!” چودھری صاحب نے سٹیٹس ڈال دیا۔میری تصویر اور پانی کی پتیلی سمیت۔! لائکس کا ڈھیر لگ گیا۔ “بولو بچو! کر دیا ناں ایکسپوز”

“بس کر دیں چودھری صاحب! پہلے سوئچ میں انگلیاں آپ لوگ خود دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں سازش ہو گئی۔ ہزاروں بلوچ غائب ہیں اور عدالتیں انہیں بازیاب کرانے میں ناکام، بھٹو کو پھانسی ہو گئی، اکبر بگٹی اور بینظیر کو شہید کر دیا گیا، نجانے کس کس پر کون کون سے پہاڑ ٹوٹ گرے، پولیس، عدالتیں، حکومتیں کوئی کچھ نہ کر سکا لیکن کسی نے اتنا شور نہیں مچایا جتنا آپ لوگوں نے ایک برطرفی پر مچا ڈالا ہے۔ فیصلہ درست تھا یا غلط لیکن اگر آپ لوگ بلاناغہ اداروں کے خلاف بولیں گے تو جواباً آپ کو نوٹس ہی ملیں گے ناں، پھول تو ملنے سے رہے!”

“او جاؤ جاؤ! بڑے دیکھے ہیں ایسے نوٹس۔ او بیوقوف تمہیں کیا پتہ سیاست کس چڑیا کا نام ہے۔ اب اگر کوئی اپنی وکٹمائزیشن پر دفاعی پوزیشن اختیار کرکے الٹا پسپا ہو گیا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ ہم تو بولیں گے اور ضرور بولیں گے۔ کم از کم عوام کو پتہ تو چلے گا کہ ہم اور ہمارا قائد برا نہیں، ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے سازش”

“چلیں پھر موج کریں، نوٹس وصول کرتے جائیں”

“انشاء اللہ!”

“بے شرم”

“اونہوں! آفت کو موقعے میں بدلنے کے ماہر۔۔۔۔ یعنی خالص سیاستدان!”

“وہ کیسے؟”

“سردار نے افسر سے پوچھا، سر اگر دشمن آ جائے تو کیا کروں؟ افسر بولا، فائر۔ سردار نے کہا، فائر کرتے وقت بندوق کا منہ کس طرف رکھنا ہے؟ افسر بولا، چاہے جس بھی طرف کر لو، فائدہ دیس ہی کا ہو گا۔”

“کیا مطلب چودھری صاحب؟”

“اوئے بیوقوفا! نوٹس کس کو ملے ہیں؟”

“موٹو گینگ کو”

“سزا کس کو ملی ہے؟”

“نہال ہاشمی کو”

“اب سوچو۔۔۔۔ ان سب کا پارٹی میں کیا مقام ہے؟ کیا یہ پارٹی پالیسی بناتے ہیں؟ کیا ان کے نام پر ووٹ ملتا ہے؟ کیا یہ اپنی سیٹیں بھی جیتنے کے اہل ہیں؟ نہیں ناں؟ لیکن اگر انہیں سزا ہو گی تو عوام میں کیا تاثر جائے گا؟ نون لیگ کی پولیٹکل وکٹمائزیشن۔۔۔۔۔ سازش۔۔۔۔۔ سازش۔۔۔۔۔ نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کیخلاف سازش۔۔۔۔۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو کیا تاثر جائے گا؟ یہ کہ ہمیں نوٹس دینے والے ہمارے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکے اور اگر ہم نے معافی مانگ لی تو کیا تاثر جائے گا، ظلم بھی ہم پر ہوا اور ہم نے اداروں کے وقار کے سامنے خود کو سرنڈر بھی کر دیا لیکن بابا رحمت نے ہماری اور ہمارے ادارے یعنی پارلیمان کی عزت نہیں کی، جمہوریت کی عزت نہیں کی، کیسا؟ یعنی کہ چٹ بھی ہماری اور پٹ بھی ہماری!”

پہلے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ چودھری صاحب کچھ سمجھنے سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اب لگ رہا ہے کہ چودھری صاحب چاہتے ہیں کہ بابا رحمت کچھ سمجھنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ غصے میں آئے اور چودھری صاحب کو ان کی کارکردگی کی بجائے ان کی مظلومیت کے عوض ووٹ لینے کے قابل بنائے۔ کاش! بابا رحمت اس ایک سال کو ویسے استعمال کرنے کا ارادہ ترک کر دیں جیسے انہوں نے اسے استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ کاش وہ بھی یہ سمجھ جائیں کہ اگر سیاستدان بولتے ہیں یا فضول بولتے ہیں تو اس کا حل یہ نہیں کہ ان کی باتوں کا جواب دیا جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ اپنے فیصلوں کو مزید واضح، مزید منطقی،مزید مدلل، مزید آئینی، مزید شفاف اور مزید ناقابل اعتراض بنایا جائے تاکہ کسی آمر، کسی سیاستدان یا کسی کرپٹ اہلکار کو خود کو سیاسی شہید بنانے کا موقع ہی نہ مل سکے۔

باباجی آپ کو اچھا لگے یا برا، لیکن سچ یہی ہے کہ حق کا راستہ لمبا اور مشکل تو ضرور ہوتا ہے لیکن وہ نہ تو آپ کا قد چھوٹا ہونے دیتا ہے اور نہ مکاروں، چالبازوں، پینترے بدلنے والوں اور چکمے دینے والوں کو سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے قابل رہنے دیتا ہے۔

اقبال یاد آ گئے۔

تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطاء ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز گرمیٔ محفل نہ کر قبول

باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

پھر اقبال یاد آ گئے

تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر