تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
احتساب بیورو نیب (نیشنل اکائوں ٹ یبلیٹی کا قیامایخ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں ہوا جس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ کر کے ملک کے معملات کو پاک صاف کرنا تھا مگر بد قسمتی سے یہ اڈارا لوگوں اور مخالفین کی حراسمنٹ کی غرض سے استعمالکیا جاتا رہا۔مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی احتساب کی بجائے وطنِعزیز میں لوٹ مار کا بازار گرمرکھا اس میں لوٹ کھسوٹ کا معاملہ 2008مئیں پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی تو کرپشن کے باشاہ نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ کر ملک کے خزانے کو ایسا نقصان پہنچایا کہ ملککو معاشی طور پر اپاہج بنا دیا گیا۔ ذرداری کی صدارت میں ان کے جتنے بھیحلیف تھے سب کو جی بھر کر نوازا گیا۔ جو اسمقولے کے مصداق تھا کہ”خود بھی کھائے اپنے بچوں کو بھیکھلائے” اس دور میں ایسے ایسے لوگوں کو ارب پتی بنا دیا گیا جن کے خاندانوں کبھی یکمشت ایک لاکھ روپے کی رقمنہ دیکھی تھی۔گر نیب کا ادارارا مخالفین کی کرپشن سے بھی پیلی باگیننگ کا کھیل کھیل کر اپنے فرائضِمنصبی سے دست بردار ہوتا رہا۔
سینکڑوں سیاست دان اور جرنیل اربوںروپے بینکوں سے قرض کی صورتمیں کھا پی کر پوتر ہوے بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں نے عوامی دولت کو معاف کرانے کے بعد اپنے آپ کو دودھ میں دھولیا۔ ایک فلمڈسٹری بیوٹر کا بیٹاکربوں روپے کا مالکبن بیٹھا اور حد تو یہہے کہ اپنی شہید بیوی کے خون کے سودے میں اقتدار کے باگیں تکسنبھال لیں ۔ اور پھر کرپشن کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔پاکستان کے اداروں کو تباہکرنے کا اور اپنے کرپٹ ہمدردوں کو ان اداروں میں بیٹھا کر ان کیمنفعت بخش قوت کو خساروں کے لیبللگوا دیئے ۔اور پاکستان کے اداروں کی تباہی کے بعد موصوف نے اپنا دور صدارت میں ہیاپنا تماملوٹا ہوا سرمایہ بیروں ملک منتقل کر کے خود بھیموقع ملتے ہییہ ض،وہجا۔
جب موجودہ حکومت نے خورشید شاہ کے ساتھ مل ایک سابقہ اہم سرکاریادارے کے ریٹائرڈ شخص کو اکائوں ٹیبیلیٹی بیورو کا چیئر مین لگایا تو مسلملیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ہی مطمعن ہوگئیں کہ انہوں نے کسیمنصف کو اس ادارے میں اپنی اپنی حکمتِ عملی سے گھسنے نہیں دیا۔اب دونوں جماعتیں ماضیکیکرپشن کے معاملات سے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے لگیں۔ مگر برا ہو ملکمیں نیب نے اپنا کامشروع کیا تو جب پیپلز پارٹیکے لوگ زد میں ؤئے تو ن لیگ پر سکون تھی۔ کہ کرپٹ لوگوں پر ہاتھ دالا گیا ہے۔ ڈاکٹر عاصمکیگرفتاری اور اجے آئی ٹیمیں انکشافات کے بعد جو کچا چٹھا سامنے آنے لگا تو پیپلز پارٹی کے تمامہیلوگ ہیجان کا شکار ہو گئے۔ اب ہر جانب سے حکومت اور اداروں کو تڑیا ں لگائیجانے لگیں۔ پیپلز پارٹی سربراہآصف علیزرداری تو اس قدر زور سے چیخے کہ ساری دنیا نئیان کیچیخ و پکار کو سنا اور اداروں کی اینٹ سے اینٹ تک بجانے کا کی چیخیں سنیگیئیں کے ۔اور کہا گیا تمتین سال کے لئے آتے ہو ہم سیاست دان ہمیشگیلھوا کر لاتے ہیں ہممت مت چھیڑنا ورنہ تمہیں کوئی پانی تکدینے والا نہ ملے گا۔جب سندھ میں احتساب کا ڈولڈالا گیا تو مسلملیگ شادیانے بجا رہی تھی مگر جب احتساب کا رخ پنجاب کی جانب ہوا تو وہاں سے بھی آہ و بکا شروع ہوگئیں۔
پنجاب میں ماضی کے بڑے کرپت لوگون پر نیب نے نظر کرمکی تو مسلملیگ میں ہر جانب ہا ہا کار مچ گئی۔حتیٰ کے محترم وزیر اعظمکو بھی اپنے ماضی کے ہمدردوں کے فیور میں بولنا پڑ گیا۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق ان اے ایک وزیر رشید صاحب بھی نیب پر مسلسل برستے چلے آرہے ہیں۔ایسالگتا ہے ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ہر سیاست داں اپنے کرپٹ لوگوں بچانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ عمران خان خان جو اپنے آپ کو بڑے صاف شفاف کاموں کی دہائی دیتے ہیں جب اُن کے وزیرِ اعلیٰ پر کرپشن کا الزام نیب سامنے لائی تو اُن کا رویئہ بھی وہ ہی تھا جو پیپلز پارٹی کا اپنے کرپٹ لوگوں کے لئے تھا ن لیگ کا اپنے کرپٹ لوگون کو بچانے کے لیئے سامنے آیا۔
نیب نے وزیر اعظمنواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف جاریکرپشن کیتحقیقات کا فیصلہ کرنے کے لئے 31ماچ 2016 کی ڈیڈ لائن مقر ر کر دی تو نیب فیصلہ کرے گیکہ یہ مقدمات ٹھوس ہیں یا پھر ان کے خلاف تحقیقات بند کر دیجائیں۔وزیر اعظم نواز شریف بڑے بڑے( میگاکرپشن اسکینڈلز )میں اسی طرح کی ڈیڈ لائن مقرر کی جاتی رہی ہیں۔ کے خلاف دو الگ الگ تحقیقات کا سلسلہجاری ایک کیس میں وزیر اعظمنواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور دیگر پر رائے ونڈ سے جاتی امرا تک سڑک کے معاملے میں کرپشن اور اختیارات کا نا جائز استعمال کا الزام2000 میں سامنے لایا گیا تھا ایف آئی اے میں افراد کی غیر قانونی بھرتیوںاور ان کیسز کے علاوہ کرپشن کے بڑے کیسز میں اسحاق ڈار کا نامبھی شامل ہے۔ ڈال کے کیس کا کرنے کی ڈیڈ لائن 29 فروری 2016 ، مقرر ہے ان کے خلاف یہ انکوائری 2000ا، سے التوا کا شکار ہے۔جن پر حیثیت سے زیادہ اثاثے اور اختیارات کے نا جائز استعمال کا الزامہے۔
جب نیب نے چند مامہا پیشتر 150،کرپٹ لوگوں کی افہرست پیش کی تو بھی ن لیگ کیجانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا تھا ۔جس کی وجہ سے حکومت اور حکومت سے باہر کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نیب کی کراوائیوں پر ناجائز الزامامات کا ایک طویل سلسلہ کرپشن میں لتھڑیپارٹیو کی جانب سے چل نکلا ہے اور کوئی بھی نیب کو ایماندارانہکامکرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیںہے۔
وزیراعظم کا نیب کے خلاف بولنا بھی ان حوالوں سے بے حد معنیخیز ہے۔جس میں اُن کا کہنا تھا کہ نیب سرکاریحکام اور افسران کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ جو معصوملولگوں؟؟؟کے گھروں اور دفتروں گھس کر انہیں اپنا کامنہیں کرنے دے رہے ہیں۔نیب کو اپنا کامذمہ داری سے کرنا چاہئے۔نیب کا روئیہ اُن کے لئے ناقابلِبرداشت ہو چکا ہے۔سرکاری افسران کو ڈرانا اور لوگوں کی عزتیں اچھالنا ٹھیک نہیں ہے۔نیب اپنے دئرے میں رہے ورنہ کار وائی کیجائے گی۔وزیر اعظمنے بعض اداروں کو شائد متنبہ صدر زرداری کی طرح کر دیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں عوامجکے ووٹوں سے بنتیہیں مگر اس کو گرا کوئی اور ہی دیتا ہے؟؟؟در حقیقت وزیر اعظمنے وہ ہی الزامات نیب پر لگائے ہیں جن کا اعادہپیپلز پارٹی کرتی رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہحکمران ہوں یا اپوزیشن سب ہی احتساب سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں پیپلز پارٹیاب کہہ رہیہے کہ وزیر اعظمکا بیان ن لیگ کیلا چاری کا مظہر ہے۔کچھ عرصہقبل پیپلز پارٹی کی جانب سے ایف آئی اے اور نیب کی کار وائیوں پر بے پناہ شور و غوغا مچیا گیا تھاسے بھی نیب پر اثر انداز ہونے کیلئے زور دیا گیا تھا۔مگر وزیر اعطمخاموش رہے۔
پیپلز پارٹی،نلیگ اور تحریک انصاف مسلسل نیب کے خلاف بات کرتیرہی ہیہیں وزیر اعظمنواز شریف نے نیب کیکاروائی کے خلاف کھلیلفظوں میں غصے کا اظہار کرتے ہوے چیئر میںنیب قمر زمان سے کہا ہے کہ ان کے تحفظات کا اگر نوٹس نہلیا گیا تو تو اس کیلئے قانونی ذرائع کا ستعمالکیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی عوامکے ذہنوں ہے کہ دو ہفتے قبل وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹکنے عمران خان کی آشیرواد سے صوبائی احتساب کے چیئر میں لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد خان کے اختیارات میں کمیکر کے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا تھا ۔جس سے تحریکِانصاف کے مائنڈ سیٹ کا اندازہلگانا مشکل نہیں رہا ہے۔ ہر نیب مٹاثرہسیاست دان داںنیب کو نیچ دکھانے کے لئے اپنیاپنی توجیح پیش کر رہا ہے وزیر اعظمکے مشیر محترم عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ نیب اصلاح طلب ادارہ ہے۔ اب جب کہ نیب نے کرپٹ لوگوں کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تو لوں کی توجہ اس کی اصلاح کی طرف جانے لگی ہے۔پنجاب کے وزیرِقانون کہتے ہیں کہ کسیکی خوشیکے لئے نیب کو کاروائی نہیں کرنے دیں گے۔
خورشید شاہ اب کہتے ہیں کہ نیب نے پنجاب پر ہاتھ ڈال؛ا تو حکومت کو بر لگا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ میں جب نیب متحرک تھی تو بڑی باتیں کیگیئں۔ پھر خود ہی کہتے ہیں کہنیب کے سربراہ کو کیسے برا کہوں کہ جن کا میں نے تحقیقات کے بعد نام دیا؟؟؟ چیئر میں نیب قمر الزمان عزمظاہرکرتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہکر کے دملیں گے۔کسی بھی بد عنوان کو نہیں چھوڑیں گے۔ نیب آرڈیننس کا طلاق پورے ملکمیں ہوتا ہے۔سندھ اور پنجاب ہی نہیں خیبر پختونخوا، فاٹا گلگت بلتستان میں بھیکاروائیاں کریں گے۔اُن کا یہ بھیکہنا تھا کہ وزیر اعظم کی ہدایت کی روشنیمیں احتسابیعمل کو مزید بہتر بنائیں گے۔کے ترجما ن کا کہنا ہے کہ نیب ایک حکومتیعدممداخلت کیوجہ سے نی ایک آزاد ادارہ ہے کو منے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23hurshid@gmail.com