وطن عزیز کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔
اپنے تعارف میں یہی لکھوں گا کہ میں صحافت کا طلب علم ہوں اور اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ اپنی جماعت کا سب سے کرپٹ ترین طالب علم ہوں۔ فخر اس لئے ہے کہ اس عظیم وطن کے عظیم لیڈروں کے نقشے قدم پر ہوں۔
بات ہو رہی تھی ربڑ کی گولی کی۔ یہ جمہوریت ہے۔ یعنی یہاں میری رائے چلے گی نہیں بلکہ دوڑے گی۔میرا وطن ہے میں جیسے چاہوں اسے چلاؤں۔ اسی جذبے وطن پرستی میں آ کر اکثر افراد جب اپنی رائے پیش کرنے نکلتے ہیں تو وہی نمانی سی شکل والی والی ربڑ کی گولی ان کے کان کی ساحل سے ٹکراتی ہے اور بڑے پیار سے اپنے حسین نرم و نازک لبوں سے یہ فرماتی ہے۔
“ہن چنگا ریا ویں ”
آج کل تو اس عجیب الخلقت مخلوق سے مل کر ایسا احساس ہونے لگتا ہے جیسے کوئی پرانا رقیب ملا ہو۔ اور اس کا درد بھی اب غم جاناں محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ملا درد اس سے ملے آنسو اس سے ملیں آہیں شب ہجر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ویسے تویہ دھرنوں اور مظاہروں میں مشتعل افراد کو سکون اور پر امن بنانے کے کام آتی ہے۔ مگراج کل ہماری گلی کے شریر بچے اس سے گولیاں کھیلتے ہیں۔ اب بھلا آ پ خود سوچیں وہ چیز جس سے بچے کھیلیں ان سے لوگوں کے جذبات کیسے کم کیے جا سکتے ہیں؟
میرے خیال میں یہی وہ کمی اور کوتاہی تھی جو فیض آ باد دھرنے کے مظاہرین کا بال بھی بیکا نہ کر سکی۔اب دور بدل چکا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں برداشت کرنے کی عوام عادی ہو چکی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے کوئی ایسی چیز استعمال کرے جس سے عوام آشنا نہ ہو۔ جیسے کے “پتھروں کی مصنو عی بارش” وغیرہ وغیرہ
آپ لوگ بھی کہیں گے
اس شخص کوہمارے شاعروں کی طرح محبوب اور محبوبہ کے علاوہ کوئی اور بات آتی ہی نہیں۔ دراصل بات کچھ
یوں ہے کہ کسی بھی درد اور غم کو اگر غم جاناں بنا دیا جاے تو وہ غم سہل لگتا ہے۔ چلیں اک شعر ہی سن لیں
آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا
اصغر گونڈوی
شادی شدہ حضرات کے علم کے لئے ایک اور بات کہ یہاں جاناں سے مراد بیوی ہرگز نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ آپ بھی ربڑ کی گولیوں کی شکایات کرتے پھریں۔ جیسا کہ آپ کو اس بات کا علم ہے کہ ہماری خواتین بھی آج کل جمہوریت کی پاسدار ہیں اور گھر میں جمہوریت کو قابل ِعمل سمجھتی ہیں۔
آپ تمام حضرات بھی وطن عزیز کے باشندے ہیں اور اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کے جمہوریت کیا ہوتا ہے اگر ذرا سا کسی بات کو منوانے کے لئے لب کھولے تو آنسو گیس ،ربڑ کی گولیاں اور ڈنڈوں سے آپ کا استقبال کیا جاتا ہے۔
خواتین سے بھی التماس ہے کے وہ جمہوریت کے اصولوں کو پورا کرنے میں احتیاط برتا کریں۔ وگرنہ اگر صورت حال حالیہ دھرنے کی طرح ہاتھ سے نکل جائے تو فوج کی طرح کسی مولانا کی ثالثی کے بغیر بات نہ بنے گی۔
اسی کے ساتھ خدا حافظ انشاللہ کسی اگلے بلاگ میں آپ کو ملاقات کی زحمت دیں گے