تحریر: ایم سرور صدیقی
لاہور کی ایک پسماندہ آبادی کے بے ترتیب محلے کی دکان پر ایک شخص کھڑا تھا اس کے چہرے پر آڑھی ترچھی اتنی لکیریں تھیں جیسے دنیا بھر کے تفکرات اور غم اسی کا نصیب ہوں اس نے رس، دودھ کا بے بی ڈبہ، کلو آٹا ،آدھ پائو دال چنا اور چائے کی پتی کا پیکٹ خریدا دکاندار سے پوچھا کتنے پیسے ہوئے؟ ۔۔۔دکاندار نے اشیاء ِ خوردو نوش کی قیمت بتائی تو اس شخص کے چہرے پرآڑھی ترچھی لکیریں اور نمایاں ہوگئیں۔۔۔اس نے مری سی آواز میں پوچھا کیا ریٹ لگائے ہیں دکاندار نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا جیسے گھور رہاہو ۔۔۔20 کی چائے کی پتی، 45 کا آٹا 10 کے رس۔۔۔ بھائی۔۔ اس شخص نے پھنسی پھنسی آوازمیں کہا چنددن پہلے تو چائے کی پتی15کی تھی۔۔۔اب کیا افتاد آن پڑی ہے۔
یہاں۔۔۔۔دکاندار نے لڑنے کے سے انداز میں کہا چیزوںک ی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہیں آج جو چیز جس نرخ پر دستیاب ہے کل اس قیمت پر نہیں ملے گی بھولے بادشاہ یہ پاکستان ہے پاکستان۔۔اس نے Tea whitener کے ڈبے کو پکڑا مشکوک سے لہجے میں پوچھا یہ دودھ ہی ہے نا۔۔۔ دکاندار اس کی بات سن کر کاٹ کھانے کودوڑا ۔۔۔اور بولا تمہیں15روپے میں بھینس دے دوں کیا؟۔۔۔اس سخص نے۔
اپنی مٹھی میں دبے نوٹ گنے پھرجیب سے کچھ ریزگاری نکال کر دکاندار کو دی اور بڑبڑاتا ہوا اپنے گھرکی جانب چلا گیا۔۔یہ زمینی حقائق پاکستان کی پسماندہ آبادیوں میں رہنے والے ہر فرد کی کہانی ہے جن کے مسائل بڑے اور وسائل نہ ہونے کے برابرہیں یہ وہ لوگ ہیں عید، شب ِ برات،بیماری یاعزیزو اقارب میں شادی آجائے تو ان کے مسائل میں دو چند اضافہ ہو جاتا ہے یہی لوگ اصل پاکستانی اور پاکستان کی حقیقت ہیں یہ وہ بدنصیب ہیں جن کیلئے کسی حکمران نے کچھ نہیں کیا بھوک سے بلکتے، سسکتے اور محرومیوں کے مارے لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں، سرمایہ داروں اور بڑے بڑے اداروںکا خاص ہدف ہیں یہ پاکستانی غربت کے ہاتھوں مجبور ورکر سستی سے سستی اشیائے ضرورت خریدنے پر مجبور ہیں اسی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اندھیر مچار کھاہے اوراپنی پراڈکٹ کے چھوٹے سے چھوٹے پیک متعارف کروادئیے ہیں کہ دکانداری چلتی رہے۔۔
دودھ ہی کو لے لیجئے یہ ہرشخص اورہر گھرکی بنیادی ضرورت ہے دودھ کے نام جو زہر ہم پی رہے ہیں اس کے نقصان کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے دودھ کی اتنی اقسام ہیں کہ شمار ممکن نہیں اس وقت ملک بھر میں کیمیکل سے بنا دودھ سب سے زیادہ فروخت ہورہاہے خوشنما ڈبوں میںبند موت دھڑلے سے بیچی جارہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں سنجیدہ حلقوں میں ایک کہرام مچاہواہے گوالے کریم نکال کر الگ فروخت کردیتے ہیںاورپھرخشک دودھ گرینڈ کرکے مکس کرکے گھروںمیں سپلائی کردیتے ہیں اس کہتے ہیں چوپڑیاں نالے دو دو۔۔۔پاکستان میں عوام کو Milk اورTea whitenerکے نام پر اتنا بڑا دھوکہ دیا جارہاہے۔
ہماری حکومتیں اس معاملہ میں بالکل گونگی بنی ہوئی ہیں نہ جانے اشرافیہ کے کون سے مفادات وابستہ ہیں کہ کوئی کچھ نہیں بولتا بازار میں طرح طرح کے برانڈ ملتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دن بہ دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہاہےTea whitener کو دودھ کہہ کربیچاجارہاہے حالانکہ یہ دودھ ہے ہی نہیں ڈبے پر بھی دودھ نہیں لکھا جاتا فقط Tea whitener تحریرہے حسین اداکاروں کے جھرمٹ میں ٹی وی کے خوشنما اشتہاروں میں ایسے ظاہر کیا جاتاہے جیسے یہ کوئی امرت ہے حالانکہ سارے کے سارے Tea whitener نرے کیمیکل ہیں اس کے علاوہdary pure اور اس سے ملتے جلتے کئی برانڈ جس میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ یہ قدرت سا شفاف ہے کھلی آنکھوںمیں مٹی ڈالنے والی بات ہے جب یہ دودھ ہے ہی نہیں تو اسے کیونکر فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے کئی سال پہلے عدالت ِ عالیہ نے ازخود نوٹس لے کر ان نام نہاد دودھ کے برانڈکا جرمنی سے” طبی معائنہ” (فرانزک رپورٹ) منگوائی تھی۔
اس میں دل کو ہلا دینے والے ہوشربا انکشافات کئے گئے تھے ان کمپنیوںنے عدالت سے درخواست کی کہ اس رپورٹ کو منظرِ عام نہ لایا جائے لہذا ان کی درخواست مان لی گئی حالانکہ عوامی مفاد میں اسے سامنے لانا ضروری تھا عدالت ِ عالیہ سے التماس ہے کہ یہ رپورٹ منظرِ عام پر لاکر دودھ کے نام بکنے والی اس ” چیز” کے بارے میں فیصلہ دیا جائے۔۔۔ چندسال بیشترپنجاب فوڈ اتھارٹی نے بڑی بڑی معروف کمپنیوں کے جام ، جیلی، مارملیڈ، ٹماٹو کیچپ اور مایونیز کو مضر ِ صحت اور دو نمبرقراردے کر پنجاب میں بیچنا ممنوع قرار دیدیا تھا پھر نہ جانے کیا ہوا ان اداروںکی پراڈکٹ بکنے لگ گئیں حقیقت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں ملنے والی اکثر جام ، جیلی،مارملیڈ،ٹماٹو کیچپ اور مایونیز پانی اور کیمیکلز کا ملغوبہ ہے۔
ان میں فروٹ نام کی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی کنٹینر پہ کنٹینرمال تیار کرنے والی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی فیکٹریوں میں کبھی کسی نے ایک ٹرک بھی فروٹ کا جاتے نہیں دیکھا سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر یہ جام ، جیلی، مارملیڈ، ٹماٹو کیچپ اور مایونیز کیسے تیار ہوتی ہے۔۔۔۔ عوام میں سے کوئی نہیں جانتا ۔۔۔یہی حال ہرکھانے والی اشیاء کا ہے نہ جانے حکومتی ادارے کہا ںسوئے ہوئے ہیں جس ملک میں ایک عرصہ سے لوگوںکو حرام گوشت کھلایا جارہاہو۔۔۔ادرک تیزاب میں ڈال کر تیار کیا جاتاہو۔۔۔دکانوںپر حلیم میں گوشت کی جگہ روئی ڈال کر فروخت ہورہا ہو،مرچ، ہلدی اور دیگر مصالحہ جات میں اینٹوں کا برادہ اورلکڑی کے برادے کی ملاوٹ ہورہی ہو وہاں بہتری کی امید عبث ہے فکر کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں دودھ دونمبر، گوشت دونمبر، دوائیاں دونمبر، صابن ،شیمپو دونمبر، گھی ،آٹا دالیں دونمبر، مشروبات دونمبر ملتے ہوں وہاں کوئی کیا کرے۔۔۔
اب تو سنا ہے تربوز اور خربوزے کو بھی سکرین کے انجکشن لگاکر” شرطیہ مٹھے” بناکر بیچا جاتاہے۔۔۔۔ حالانکہ ہمارے مذہب اسلام نے ملاوٹ کرنے سے سخت منع فرمایاہے نبی ٔ معظم ۖ کا ارشاد ِ گرامی ہے جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔۔۔دولت کی ہوس نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیوں کو چھین لیاہے ان تمام ترخرابیوںکی اصل ذمہ دار حکومت ہے جس نے عوام کو دونمبر لوگوںکے رحم وکرم پر چھوڑ دیاہے اور عوام اسی وجہ سے سانس ،پیٹ اور معدے کی عجیب عجیب بیماریوں کا شکارہورہے ہیں۔ جن ملکوںکو ہم کافر کہتے نہیں تھکتے وہاں فوڈ ایٹمز کیلئے سخت قوانین موجودہیں اور ان پرعمل درآمد ہوتا نظر بھی آتاہے۔۔
یہ بات طے ہے کہ ظالم لوگ اشرافیہ کی سرپرستی کے بغیر اتنی دونمبری نہیں کر سکتے اب وقت آگیاہے کہ حکمران اس بات کااعلان کریں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں عوام کے ساتھ یادونمبر لوگوں کے ساتھ۔۔۔اگروہ عوام کے ساتھ ہیںتو ملاوٹ کرنے والے ہرشخص کا بے رحم احتساب کیا جائے ملک بھر میں ہر قسم کے Tea whitener یا اس سے ملتے جلتےMilk کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائدکردی جائے۔۔ کھانے پینے کی تمام اشیاء بالخصوص دودھ،گوشت، ادوایات ،گھی ،آٹا دالوںکی خالص فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے سخت فیصلے بھی کرنا پڑیں تو گریزنہ کیا جائے حکومت صرف یہ کام کرلے تو یقین سے کہا جا سکتاہے ہسپتالوںمیں مریضوںکی تعدادمیں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔
تحریر: ایم سرور صدیقی