تحریر : اقبال زرقاش
ُپاکستانی عوام آخر کب تک ان بے رحم بے حس سیاستدان کے مفادات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے آئے روز نئے نئے پرکشش نعروں کے ساتھ چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر آنے والے یہ بہروپیے کب تک عوام کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے ؟میرے ملک کی عوام میں کب شعور بیدار ہو گا ؟میر ی نوجوان نسل کو سیاسی ہنگاموں پر اُکساکر اپنے مخصوص مفادات کے لیئے استعمال کرنے والے طالع آزماؤں کو کب ناکامی کا سامنا کر نا پڑے گا ؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات مجھے نہیں مل پا رہے کیونکہ یہ سب کچھ آج سے ہی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے دوہرایا جا رہا ہے میرے ملک کی عوام ہرآنے والے کو اپنا حقیقی مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے۔
حالانکہ ان لامتناہی تجربات سے یہ قوم کب سے گزر رہی ہے مگر ابھی تک شعور کا فقدان ہے ہمارے ملک کی اکثریتی سیا سی پارٹیاں اپنے مفادات سے باہر نہیں نکل پا رہیں سیاست منافع بخش کاروبار بن کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ بھی اس میں آن ٹپکا ہے دوسر ا بڑا المیہ ہماری سیاست میں شخصیات پرستی کا وہ خول ہے جس سے کوئی سیاسی پارٹی باہر نہیں نکل پارہی مثلاًاگر نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ کر دیا جائے تو ن لیگ ختم نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو آصف زرداری سے علیحدہ کر دیا جائے تو وہ بکھر جاتی ہے الطاف بھائی کو نکال دیا جائے تو ایم کیو ایم ،عمران خان کو نکال دیا جائے تو تحریک انصاف ،چوہدری بردران کو نکا ل دیا جائے تو (ق)لیگ کا شیرازہ بکھر جاتا ہے موروثی سیاست دانوں نے جہاں پارٹیوں سے جمہوریت ختم کر دی ہے وہاں فیصلہ سازی میں بھی شخصیات کا کردار نمایا ں نظر آیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈکٹیٹر شپ اور جمہوریت میں کو ئی فرق محسوس نہیں ہو رہا لوگوں کا جمہوریت سے اعتماد اُٹھتا دیکھائی دیتا ہے اور عوام فوج کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اس کے لیئے ضروری ہے کہ اہم فیصلہ سازی میں بھی جمہوری رویہ کو فوقیت دی جائے تاکہ عوام کی امنگوں کے مطابق پارٹیوں میں فیصلے کیئے جائیں آج جو ملکی صورت حال ہے اس کی خرابی کی ذمہ دار ی بھی شخصی فیصلہ سازی کا نتیجہ ہے اک طرف ایک پارٹی حکومت گرانے کے لیئے نئے نئے حربے استعمال کر رہی ہے دوسری طرف حکومت بچانے کے لیئے نئی نئی تدبیر کی جا رہی ہیں اس میں ہمارے میڈیا کا کردار بھی کوئی قابل رشک نہ ہے میڈیا بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔
عوام اس قدر کنفیوزہو چکی ہے کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا قوم بھی میڈیا کی طرح تقسیم نظر آتی ہے جو کہ نہایت خطر ناک صورت حال ہے موجودہ صورت حال سیاسی جلسوں اور دھرنوں کے گرد گھوم رہی ہے ملک کودر پیش مسائل سے نمٹنے کے لیئے حکومت کیطرف سے کوئی حکمت عملی کہیں نظر نہیں آرہی حکومت ہر معاملے کو دھرنوں پر ڈال کر بری الزمہ ہو رہی ہے امن و امان اور لاقانونیت کی صورت حال قابو سے باہر ہو چکی ہے حکمرانوں کی تما م تر توجہ دھرنوں اور جلسوں پر مرکوز ہے دوسر ی طرف عمران خان جس قسم کی تبدیلی کی نوید سنا رہے ہیں اس میں کشش تو بہت نظر آتی ہے لیکن جب ان کے اردگرد لوگوں پر نظر پڑتی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان پیشہ ور بزنس مینوں یا جاگیرداروں کے حصار میں ہیں خان صاحب کی نیت پر تو شک نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ،موجودہ بوسیدہ نظام سے چھٹکارہ ،اقرباپروری، چند خاندانوں کی سیاست میں اجارہ داری کا خاتمہ ملکی خزانے کی لوٹ مار میں ملوث افراد کے گرد محاسبہ کون کرے گا کیا وہ تنہا یہ سب کا م کر پائیں گے ؟ جب کے ان کے گرد لوگوںکو دیکھ کر یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔عمران خان کی ملک بھر میں مقبولیت کے گراف میں بے پناہ اضافہ ہو اہے اس کا کریڈٹ بھی موجودہ نااہل حکمرانوں کو ہی جاتاہے جنہوں نے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بر وقت حل نہ کرکے اُنکو ایک بڑے بحران کی شکل دے دی ہے میاں نواز شریف کو اپنی ٹیم کا جا ئزہ لینا چاہیے جو نہایت چرب زبان اور نا اہل افراد پر مشتمل ہے عمران خان نے حکومت سے بات چیت کے لیئے لچک دکھا دی ہے حکمرانوں کو بھی اس کا مثبت جواب دینے کی ضرورت ہے اگر الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر حکومت اس پر تحقیقات کرانے سے کیوں بھاگ رہی ہے ہمارے ہاں بدقسمتی سے حکمران طبقے کو ان کے مشیران وہی بات بتاتے ہیں جس کو وہ سننا پسند کرتے ہیں جبکے انکو حقیقی صورت حا ل سے آگاہ نہیں کیا جاتا جسکی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مسئلے جب ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو پھر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اک بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔
موجودہ صورت حال نے نواز شریف حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے وہ غلطی پر غلطی کر رہے ہیں عوام بھی ان سے بے حد نالاں ہیں پیڑولیم مصنوعات میں کمی کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل پا رہا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی بے روزگاری جیسے مسائل نے موجودہ حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جا تا ہے اس کا تما م تر فائد ہ تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے عمران خان کے جلسوں میں لاکھوں افراد کی شرکت موجودہ حکومت کے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔
تحریر : اقبال زرقاش