counter easy hit

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں رومانس کی افواہیں

Rumors of romance in PPP and Tehreek-e-Insaf

لاہور (ویب ڈیسک) سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ضمانت کے لئے دائر کی گئی سات درخواستیں واپس لینے کے بعد پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ معاملات طے ہونے کی خبروں کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی نے جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ نامور صحافی مبشر میر اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت مخالف تحریک چلانے کی بھی حمایت نہیں کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس سینیٹ (ایوان بالا) میں مستحکم پوزیشن تُرپ کا پتہ ہے جسے انہوں نے بروقت کھیلا اور چیئرمین ایوان بالا ان کی عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ اگر چہ شرجیل انعام میمن کی ضمانت منظور ہوئی، لیکن اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی، شہر قائد میں یہ خبر بھی زیرگردش ہے کہ عنقریب پیپلز پارٹی کو مزید خوش خبریاں ملنے والی ہیں، ڈاکٹر عاصم حسین پر بھی مشکلات مزید کم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔یہ سوال پھر سر اٹھائے گا کہ جس احتساب عمل پر کروڑوں روپے عوام کے ٹیکس کے لگائے گئے ہیں، کیا رائیگاں جائیں گے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کا شور پورے ملک میں سنائی دیا، آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔پیپلز پارٹی نے حفظ ماتقدم کے طور پر آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی کی تین قائمہ کمیٹیوں میں رکنیت دے دی ہے، ان کمیٹیوں کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق یہ سارا عمل پروڈکشن آرڈر کے حصول کے لئے کیا گیا ہے،کیونکہ قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بھی پروڈکشن آرڈر جاری کر سکتا ہے۔ میاں شہباز شریف کے لئے بھی مسلم لیگ(ن) نے ایسی سہولت پیدا کی ہے۔ صوبائی اسمبلی سندھ میں شرجیل انعام میمن کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لئے انہیں بھی قائمہ کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تھا۔یوں اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن ایسی سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔ ماضی میں سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم حقیقی کے ممبر کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم حق پرست اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور استعمال کرتی تھی۔پیپلز پارٹی کے لئے اگر اچھا وقت قریب ہے تو ضروری نہیں کہ چند اہم افراد کی گرفتاریاں رُک جائیں، ممکن ہے کہ مزید گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں، اس دوران سندھ اسمبلی نے نئے مالی سال کا بجٹ منظور کرلیا ہے۔ اپوزیشن زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی، سندھ حکومت کی پوزیشن اسمبلی میں خاصی مضبوط ہے، تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو مسلسل ہدف تنقید بنارہے ہیں، جس میں کراچی میں پانی کی شدید قلت، سندھ میں غربت اور تعلیم وصحت کے مسائل قابل ذکر ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت شہر کراچی میں پانی کی فراہمی میں ناکام ہے، لوگ مہنگے داموں ٹینکرز خرید رہے ہیں، جس میں بااثر افراد کے مالی فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پانی منشیات کی طرح فروخت ہورہا ہے۔ واٹر بورڈ کے چیئرمین بے اختیار نظر آتے ہیں اور بااختیار وزیر سعید غنی بھی اس سلسلے میں بے اثر دکھائی دیتے ہیں، شہر کراچی کے عوام رمضان المبارک سے لے کر اب تک پانی کی خریداری میں بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔کراچی کے مسائل کے حوالے سے جماعت اسلامی نے سہراب گوٹھ سے مزار قائد تک ”کراچی عوامی مارچ“ کا انعقاد کیا،جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے خطاب میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بنایا، ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی سے صوبہ سندھ میں حکومت کرنے والی جماعتیں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کی کراچی کے شہریوں کے لئے ایک طویل جدوجہد ہے جو مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔18جولائی کو گھوٹکی میں ہونے والی ضمنی الیکشن کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، سندھ کے سینئر وزیر ناصر حسین شاہ نے جن کے پاس کئی وزارتوں کے قلمدان تھے، انہوں نے اچانک اپنا استعفیٰ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کردیا ہے، ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ وہ گھوٹکی کی انتخابی مہم چلانا چاہتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ناصر حسین شاہ کے استعفیٰ کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہے، ان کا نام سندھ کے آئندہ وزیراعلیٰ کے طور پر بھی لیا جارہا تھا، ان کے اچانک استعفیٰ نے خود پیپلز پارٹی کے حلقوں کو بھی حیران کردیا ہے، دیکھنا ہوگا کہ ان کے استعفیٰ کی وہی وجوہات ہیں یا پس پردہ کوئی اور کہانی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website