تحریر : علی عمران شاہین
رمضان المبارک کے آخری ایام کرئہ ارض کے کونے کونے میں زخموں سے چور اور دکھوں، تکلیفوں سے رنجور امت مسلمہ کیلئے مزید کربناکی میں گزرے۔ دنیا میں مسلم امہ کیلئے امیدوں کا مرکز بننے والے ترکی پر دہشت گردوں نے ہولناک حملہ کیا۔ ان کا نشانہ استنبول کا ہوائی اڈہ تھا جو یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ اس حملے میں 50 کے قریب لوگ جانوں سے گزر گئے۔ ترکی میں لگ بھگ گزشتہ 2سال سے ایسے حملے ہو رہے ہیں کیونکہ ترکی نے فرعون زمانہ بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔
بشار الاسد ایسا سفاک درندہ ثابت ہوا ہے کہ جس نے صرف اور صرف اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے اپنے سارے ملک کو ہی کھنڈر بنا ڈالا ہے۔ اپنے ہی 6لاکھ شہری مار ڈالے ہیں تو 80فیصد آبادی ملک سے بھگا دی ہے۔ وہ اس پر نازاں ہے کہ اس نے اقتدار بچا رکھا ہے۔ بشار کی اس تاریخ کی بدترین دہشت گردی میں اگر روس و ایران کھلم کھلا اس کے ساتھ ہیں تو امریکہ، یورپی دنیا اور باقی عالم بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے بھی غیرعلانیہ طور پر اس کے مکمل ہمنوا اور مددگار ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ہفتے بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار مقامی مسلح گروپوں کی تو خوب مذمت کی اور انہیں مجرم قرار دیا لیکن بشار الاسد کے خلاف انہیں بولنے کو پھر بھی ایسے الفاظ کبھی نہیں ملتے جیسے اس کے مخالفین کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
اسی شام کے 30لاکھ لوگ آج ترکی کے اندر پناہ گزین ہیں جن پر ترکی اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اور انہیں مہاجر کے بجائے مہمان کا درجہ دیا گیا ہے۔ دنیا میں اتنے پناہ گزینوں کی یوں مہمان نوازی کی مثال شاید ہی کبھی ملے۔ ان 30لاکھ شامی باشندوں کو سنبھالنے میں اقوام متحدہ سمیت بشار الاسد کے سارے حامی ایک پائی پیسہ تک خرچ کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ تو انہیں واپس وطن لے جانے کی بھی بات نہیں کرتے۔ اسی شام کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے بیڑا اٹھایا تو ان کا انتہائی ترقی یافتہ ملک جو جی ٹوئنٹی کارکن اور دنیا کی 18ویں بڑی معیشت ہے، اس وقت انتہائی خطرات سے دوچار ہے۔ امریکی شہ اور اسلام دشمن طاقتوں کی مدد و حمایت سے کرد باغی جو رجب طیب اردوان سے مکمل صلح و صفائی کر کے پرامن راہ اختیار کر چکے تھے، ایک بار پھر ترکی پر حملہ آور ہیں۔ استنبول ایئرپورٹ پر حملہ جس نے بھی کیا کا، اس کا مقصد ساری دنیا کے سامنے ہے کہ اسلام کی محبت میں سب کچھ قربان کر کے ترکی کو عالمی طور پر دیگر بہت سے مسلم ممالک کی طرح کاٹ کر بے حیثیت کر دیا جائے تاکہ مسلم امہ کے حق میں اٹھنے والی یہ آواز بھی دب کر رہ جائے۔
استنبول میں حملے کی ابھی بازگشت سسنائی دے رہی تھی کہ سفاک ترین دہشت گردوں نے سعودی عرب کے شہروں جدہ اور قطیف کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کے دوسرے حرم مدینہ منورہ پر حملے کی انتہائی ناپاک ترین اور گھٹیا ترین حرکت و جسارت کر ڈالی۔ یہاں ہم سعودی عرب میں ہونے والے حملوں کے حوالے سے سعودی حکام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ان کی سکیورٹی فورسز نے ایک ہی روز کے ان تمام حملوں کو انتہائی سرعت و چابکدستی و مہارت سے ناکام بنایا۔ تینوں حملوں میں سکیورٹی اہلکار تو شہید و زخمی ہوئے لیکن کسی دوسرے عام فرد کو معمولی گزند تک نہیں پہنچی۔ مدینہ منورہ کے حملے میں تو بھاری جانی نقصان کا اندیشہ تھا لیکن 5سکیورٹی فورسز اہلکاروں نے اپنے جسموں کے ٹکڑے کروا کر عالم اسلام کو اندوہناک ترین سانحہ سے بچا لیا۔ اس شنیع واردات کے موقع پر سعودی حکام نے انتہائی حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں زائرین مہمانوں کو یہ باور کرایا کہ یہ ان کی معمولی کی سکیورٹی تربیتی کارروائی تھی۔ ان کی اس حکمت عملی کے باعث اس کے باعث بھگدڑ مچنے کی نوبت نہ آئی، یوں اس دن اور بعد میں بھی عام لوگ پرسکون رہے۔ سعودی سکیورٹی فورسز کا یہ عمل ثابت کرنا ہے کہ وہ حرمین شریفین اور اپنے ملک کے ایک ایک انچ کی حفاظت کے صحیح معنوں میں حق دار اور تیار ہیں۔
سارا عالم جانتا ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلم امہ کی رہبری، رہنمائی، قیادت و سیادت صرف یہی دو ملک یعنی ترکی و سعودی عرب کر رہے ہیں اور اب یہی ملک دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ ترکی اگر اسرائیل کے مظالم کی مذمت، فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد و حمایت کا عرصہ دراز سے مشن انجام دے رہا ہے تو اس نے آج کے دور میں دنیا کے ہر فورم پر مسلمانوں کی نمائندگی، ان کے حقوق کے غصب، ان پر مظالم کے خلاف بھی آواز بلند کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب مسلم دنیا کی عسکری و معاشی اتحاد تشکیل دے کر اسے مضبوط بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ مسلمانوں پر دنیا کے کونے کونے میں ظلم و ستم کی آندھیاں چلانے اور بے پناہ خون بہا کر تماشا دیکھنے والوں کو بھلا یہ سب کچھ کیسے ہضم ہو سکتا تھا کہ مسلمان اتحاد و اتفاق اور اپنے حقوق اور عزت و فلاح کے لئے آواز بلند کر کے اس کے حصول کے لئے عملی جدوجہد شروع کریں۔ سو دنیا بھر کی اسلام دشمن طاقتوں نے اب انہوں نے ان ملکوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت نے گزشتہ چند سال سے اسلام دشمن طاقتوں سے گٹھ جوڑ کر کے ملکی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ لیکن چونکہ بنگلہ دیش بنیادی طور پر ایک مسلم ملک ہے جس کے عوام کی بھاری اکثریت اسلام سے بے پناہ محبت کرتی ہے، سو اب وہی بنگلہ دیش بھی ان اسلام دشمنوں کے نشانے پر ہے۔
حسینہ واجد نے 39 سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اس نے ترکی کی آواز میں کبھی آواز نہیں ملائی، اس نے دنیا میں مسلمانوں کیلئے کبھی کوئی معمولی کلمہ خیر نہیں کہا۔ اس سے مستزاد اسلام کے مرکز و قلعہ سمجھے جانے والے پاکستان کے ساتھ بھارتی شہ پر باقاعدہ محاذ کھول کر اسلام پسندوں کو پھانسیاں دینا شروع کیں، تاکہ وہ اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں کا تارا بن سکے۔ اس سب کے باوجود وہ جو اسلام دشمن قوتوں کو لُبھا نہیں سکے کیونکہ ان طاقتوں کو بخوبی پتہ ہے کہ بنگلہ دیش بنیادی طور پر ایک مسلم ملک ہے اور وہ اب اس کے بھی اسی بنیاد پر درپے ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے سفارتی علاقے میں حملہ ہو یا دیگر حملے، سب یہی بتا رہے ہیں کہ مسلم دنیا کیلئے چینلنجز کم نہیں ہو رہے بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ چند دن سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پامپورہ میں لشکر طیبہ نے بھارتی فوج پر حملہ کیا تو امریکہ اور اقوام متحدہ کو فوراً پریشانی لاحق ہو گئی اور انہوں نے بھارت کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے ”تشدد” کی مذمت کی لیکن بھارتی فورسز اس وقت اور اس سے پہلے بلکہ دہائیوں سے کشمیریوں کا بے پناہ قتل عام کر رہی ہے، اس پر انہیں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ کشمیری قوم کے کتنے بچے آئے روز گولیوں کا نشانہ بن کر قبروں میں اتر رہے ہیں لیکن چونکہ وہ مسلمان ہیں، لہٰذا ان کا خون بے حیثیت، رائیگاں بلکہ مباح ہے البتہ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والوں کے ہاں کوئی ایسا معمولی واقعہ ہو جائے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ مسلم دنیا کو اس وقت صرف اور صرف مشترکہ و متحدہ دشمن کے خلاف ملک ہونے کی ضرورت ہے۔ مسلم دنیا کا کوئی ملک یا حکمران اگر یہ سمجھتا ہے کہ ابھی اس کی باری نہیں آئی تو اسے بنگلہ دیش سے سبق ضرور حاصل کر لینا چاہئے۔
اسلام دشمن طاقتیں تو اب ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے عالمی مبلغ اسلام کو بھی بخشنے اور قبول کرنے پر تیار نہیں جو صرف اور صرف دین کی تبلیغ کرتے ہیں۔ برطانیہ اور کینیڈا نے ان کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی لگائی تو اب ان کا اپنا ملک، بھارت ان کے درپے ہے جہاں پہلے ہی ان کے تبلیغی اجتماعات پر پابندی ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں اور عوام کو اب اپنے اپنے پیٹ اور محض اپنے اپنے گھر کو بچانے کی فکر سے نکلنا ہو گا۔ اگر ان کے مخالفین کی لگائی آگ ہے کہ پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
پاکستان نے اگرچہ آپریشن ضرب عضب و دیگر کارروائیوں سے دہشت گردی کے ناسور پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ مخالف قوتیں اب اگلی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ پاکستان کو اب امریکہ کی جانب سے بھارت، بنگلہ دیش اور ایران کے ذریعے گھیرنے کی تیاریاں زورشور سے جاری ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ افغانستان نے اب پاکستان سے گندم اور آٹا منگوانا بند کر دیا ہے۔ انہیں اب یہ سامان خوراک بھارت فراہم کرے گا، اور اس پر جو بھاری اضافی اخراجات اٹھیں گے وہ امریکہ و نیٹو مل کر برداشت کریں گے۔ کھیل اس قدر خطرناک مرحلے میں داخل ہو رہا ہے کہ اس میں ہر لمحہ ہر لحظہ آنکھیں کھولے رکھنے کی ضرورت ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان نازک اور خطرناک ترین لمحات میں مسلم امہ خصوصاً پاکستان کا جو کردار ہونا چاہئے وہ دکھائی دے نہیں رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے اور مسلم امہ اب یکسو ہو کر نیٹو اور یورپی یونین کی طرز پر آگے بڑھے۔ ترکی و سعودی قیادت میں اتحاد مزید مضبوط بنایا جائے۔ عوام بھی بیدار ہوں، ہر سطح پر اس کے لئے کام ہو تاکہ مسلم امہ ایک بار پھر عزت و سرخروئی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
تحریر : علی عمران شاہین
(برائے رابطہ:0321-4646375)