تحریر : شیخ توصیف حسین
ایک کہاوت ہے والئی حیدر آباد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا جس کو بچا نے کیلئے ڈاکٹروں کی پوری ٹیم سر توڑ کو شش کرنے میں مصروف عمل تھی ایک دن ڈاکٹروں کو ان کے آپریشن کیلئے حفظ ما تقدم کے طور پر اضافی خون کا بندو بست رکھنا تھا تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے لہذا ڈاکٹروں نے اپنی اس خواہش اور ضرورت سے میر صا حب کو آ گاہ کیا تو انہوں نے ڈا کٹروں کو آ گاہ کرتے ہوئے کہا کہ لندن میں جتنے بھی شاہی خا ندان کے افراد رہا ئش پذیر ہیں انھیں بلا کر ان کا خون لے لو ان کے فر مان کے مطا بق ڈاکٹروں نے لندن کی گلی گلی اور کو چہ کو چہ میں شاہی خا ندان کے افراد کی تلا ش شروع کر دی لیکن کر نا خداوندکریم کا یہ ہوا کہ ڈا کٹروں کو اُس وقت تلاش کے باوجود کوئی شاہی خاندان کا فرد نہ ملا ناکام اور مایوس ہو کر ڈاکٹروں نے یہ بات وا لئی حیدر آ باد کے نوٹس میں لا ئے اور ساتھ ہی انھیں مطلع کیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں آپ کے گروپ والا خون یہاں ڈرموں کے حساب سے دستیاب ہے اس لیئے کوئی مسئلہ نہیں ہم خود آپ کے گروپ کے خون کا بندو بست کر لیں گے والٹی حیدر آباد کے سامنے موت کھڑی تھی لیکن کیا مضبوط اعصاب تھے۔
کیا اصولوں کی پاسداری تھی اور کیا وضع داری تھی فرمانے لگے نہیں نہیں کسی اور خاندان کے خون کے بندوبست کی ضرورت نہیں میں زندگی کے مختصر اضا فے کیلئے شاہی خون میں کسی اور خون کو شامل کرنے کی اجا زت نہیں دے سکتا لہذا والئی حیدر آ باد شاہی خون بر وقت نہ ملنے کے سبب بے موت مر گیا لیکن کسی دوسرے خا ندان کے فرد کا خون قبول نہ کیا والٹی حیدر آ باد خود تو وفات پا گئے لیکن اپنے اعلی کردار کی وجہ سے نہ صرف اپنا نہ صرف اپنا بلکہ اپنے خا ندان کا نام تاریخ میں قطب ستارے کی طرح روشن کر گئے افسوس صد افسوس آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے اس معزز معاشرے میں اعلی خا ندان کے افراد جہنیں خداوندکریم نے محض اس لیئے اعلی عہدوں پر فائز کیا ہے کہ وہ انسانیت کی بقاکے حصول کی خا طر اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرے گے لیکن افسوس کہ یہ اعلی خاندان کے افراد چند کا غذ کے ٹکروں کے حصول کی خا طر یہ جا نتے ہوئے بھی کہ ان کی زندگی پانی کے بلبلے کی ما نند ہے۔
ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر کے نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے خاندان کے نام پر ایک بد نما داغ بن کر رہ گئے ہیں جس کا واضح ثبوت تحصیلدار محکمہ مال جھنگ رانا لیاقت علی خا ن ہے جس کی سر پرستی میں محکمہ مال جھنگ کا عملہ جس میں رجسٹری کلرک را نا مرتضی سر فہرست ہے جو اپنے بزرگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر رجسٹری و انتقال کی مد میں کھلے عام آئے روز لاکھوں روپے ہڑپ کر نے میں مصروف عمل ہے یہی کافی نہیں مذکورہ آ فیسرز کی لوٹ کھسوٹ کو دیکھ کر باقی ماندہ عملہ جس میں ڈرائیور چپڑاسی فوٹو گرافر اور عریض نویس شامل ہیں غریب سائلوں کی مجبوری کا نا جا ئز فائدہ اُٹھاتے ہوئے انھیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں جن کی اس قدر لوٹ مار کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ محکمہ میں قانون کی حکمرانی نہیں۔
بلکہ رشوت خور مذکورہ افسران و دیگر عملہ کی حکمرانی ہے جو کہ ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ افسران و دیگر عملہ کے کالے کرتوتوں کی متعدد بار اطلاع ارباب و بااختیار کو دی جا چکی ہے جو نجانے کس مصلحت کے تحت تاحال خا موش تماشائی کا کردار ادا کر نے میں مصروف عمل ہیں جن کی خا موشی کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ افسران و دیگر عملہ کے حو صلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ اب سرکاری زمینوں کو بھی فروخت کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال ارباب و بااختیار بالخصوص ڈی سی او جھنگ نادر چھٹہ کی نظر کر رہا ہوں ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے صحافتی فرائض کی ادا ئیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران ایک شخص میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگا کہ ہمارے ضلع جھنگ میں قانون کی حکمرانی ہے یا پھر قانون شکن عناصر کی اگر قانون کی حکمرانی ہے تو پھر تحصیلدار محکمہ مال جھنگ رانا لیاقت علی رجسٹری کلرک را نا مرتضی ریاض محمد سپرا گرداور چک گھمنانہ اور نواز لکھنانہ حلقہ پٹواری چک گھمنانہ کھلے عام بغیر کسی ڈر اور خوف کے سرکاری اراضی کو لمبو سکیم رقبہ تقریبا 54کنال ٹیوب ویل نمبر 3چک گھمنانہ جو کہ انگریزوں نے نوے سال قبل چند ایک شرائط کے عوض حاجی محمد دین بھٹی کو لگان پر دی تھی جس میں اہم شرط یہ تھی کہ پٹہ دار لگان مذکورہ سکیم سرکاری اراضی کو فروخت نہیں کر سکتا اور جب بھی سرکار کو مذکورہ اراضی کی ضرورت پڑے گی۔
مثلا سر کاری ہسپتال سرکاری سکو ل و کا لج و دیگر سرکاری منصو بے کیلئے تو پٹہ دار لگان مذکورہ سکیم کو فورا چھوڑنے کا پا بند ہو گا کی پلا ننگ کر کے لاکھوں روپے کے عوض فروخت کر کے قانون کی دھجیاں اُڑانے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں جس کے نتیجہ میں لا تعداد افراد نے مذکورہ سکیم پر پختہ مکا نات و دو کا نات تعمیر کر کے رہائش پذیر ہو کر رہ گئے ہیں اگر میری ان باتوں کا انتظامیہ جھنگ و دیگر ارباب و بااختیار کو یقین نہ آئے تو وہ از خود اپنی آ نکھوں سے دیکھ سکتے ہیں نذکورہ آ فیسر و دیگر عملہ کی لوٹ کھسوٹ کو جو دیمک کی طرح چاٹ کر ملک و قوم کو ہڑپ کر رہے ہیں لہذا حکومت پا کستان کو چاہیے کہ وہ بیرونی دہشت گردوں کا محاسبہ کر نے کے بجائے ملک میں رہنے والے رشوت خور دہشت گردوں کا محا سبہ پہلی فرصت میں کریں چونکہ یہ وہ ناسور ہیں جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب عوام کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ ملک کو کنگال کرنے میں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو آج ہمارا ملک جو بھکاری ملکوں کی صف میں کھڑا ہے یہ سب انہی رشوت خور دہشت گردوں کی وجہ سے بنا ہے۔
جو راتوں رات امیر بننے کیلئے اپنے ضمیر اپنے فرائض و منصبی اپنے مذہب اور بالخصوص انسانیت جس کی بقاء کے حصول کی خا طر نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنے آ پ کو بلکہ اپنے عزیز و اقارب جس میں چھ ماہ کا علی اصغر بھی شامل تھا کو قربان کر دیا تھا کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہیں یقینا یہ وہ ناسور ہیں جو ملک و قوم کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں جنہیںمسلمان کہنا بھی مسلمان نام لفظ کی تو ہین ہے اس شخص کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سو چنے لگ گیا کہ کیا واقعہ ہی ڈی سی او جھنگ نادر چھٹہ جسے خداوند کریم نے لاتعداد وسائلوں سے نوازا ہے محکمہ مال جھنگ میں تعنیات مذکورہ رشوت خور دہشت گردوں کا محاسبہ کرے گا یا پھر
بالآ خر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی زنجیریں پگھل ہی جائے گی یاروں
میں تو بے رحم وقت کی تقدیر کو بدلنے کیلئے چلا ہوں یاروں
تحریر : شیخ توصیف حسین