لاہور(ویب ڈیسک) پچھلے سال میشا شفیع نے اپنے ساتھی اداکار علی ظفر پر انھیں جنسی طور پر ہراس کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ معاملہ سوشل میڈیا پر زیرِ بحث رہاپھر عدالت تک بھی گیا اور آج بھی عدالت میں ہی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہا ۔ علی ظفر نے کل بھی اس الزام سے انکار کیا اور آج بھی وہ ہر نجی چینل پر بیٹھ کے زار و قطار رو رہے ہیں اور خاتون میزبان انھیں پچکار رہی ہیں۔ یا حیرت کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور چونکہ جنسی ہراس کے معاملے پر قانون سازی ‘کام کی جگہ’ یا ‘ورک پلیس’ تک ہی محدود ہے اس لیے شاید تکنیکی طور پہ میشا کے لیے کچھ قانونی مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ علی ظفر کی ملازم نہیں تھیں لیکن جب تک اس معاملے پر بات نہیں ہو گی، مستقبل میں اس قسم کے واقعات پر بھی کبھی بات نہیں ہو سکے گی۔ کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے۔ یہ عدالت میں ثابت ہو گا ۔جبکہ ۔ 31 مئی 2019 کو گلوکار علی ظفر نے ایک بار پھر میشا شفیع کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ اپنے الزامات کی معافی مانگ لیں تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔ البتہ گلوکارہ کی جانب سے اس پیش کش کو رد کر دیا گیا۔اب سیشن عدالت میں گلوکارعلی ظفر کی جانب سے گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف دائر100 کروڑ روپے کے ہتک عزت کے دعویٰ میں میشا شفیع کی والدہ نے گزشتہ روز عدالت پہنچ گئیں،گلوکارہ کی والدہ صبا حمید اپنی بیٹی کے حق میں گواہی دینے کے لئے آئی تھیں تاہم ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ کے رخصت پر ہونے کے باعث کیس کی مزید سماعت 29 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی،عدالت نے گواہان کو آئندہ سماعت پر دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔