پیاری اور معصوم سبیکا کو کراچی میں سپردخاک کردیا گیا لیکن میرے لئے اس کی موت کا غم اتنی جلدی سپردخاک کرنا مشکل ہے۔ میں تو اس کو کبھی ملا بھی نہ تھا لیکن چند روز پہلے سحری کےوقت ہزاروں میل دور پردیس میں اس کی موت کی خبر نے اداس کردیا۔
ٹیکساس کے ایک اسکول میں فائرنگ سے مارے جانے والوں میں پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ بھی شامل ہے، تو میں کافی دیر تک اس کے والدین کے بارے میں سوچتا رہاجو بیٹی کی لاش کے ساتھ لپٹ کر رو بھی نہ سکتے تھے اور پھر وہ چار دن تک لاش کا انتظار کرتے رہے۔ ایک زمانے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان براہ رست پروازیں ہوتی تھیں۔ اگر یہ پروازیں برقرارہوتیں تو سبیکا کا جسد خاکی زیادہ سے زیادہ 24گھنٹے میں پاکستان پہنچ جاتا لیکن یہ پروازیں نہ ہونے کے باعث سبیکا کا تابوت چار دن میں پاکستان پہنچا اور یہ چاردن صرف سبیکا کےسگے والدین نہیں بلکہ پاکستان کے ہر باپ اور ہر ماں نے بڑے کرب میں گزارے۔ ویسے تو پاکستان میں روزانہ بہت سے لوگوں کوگولی ماردی جاتی ہے، کئی بیگناہ بم دھاکوں میں مارے جاتے ہیں۔ ہم روزانہ کئی جنازے اُٹھاتے ہیںلیکن سبیکا کا جنازہ بہت بھاری محسوس ہوا۔ یہ پیاری بیٹی پچھلے سال کینیڈی لوگریوتھ ایکسچینج پروگرام کے اسکالرشپ پرپڑھنے کے لئے امریکہ گئی تھی۔ ٹیکساس کے سانتافی ہائی اسکول میں سبیکا کا ایک سال مکمل ہونے والا تھا اور وہ
عیدالفطر پر پاکستان واپس آنے والی تھی۔ زندگی کے آخری دن وہ سحری کے وقت بیدارہوئی۔ خود ہی روزہ رکھا اور پھر تیار ہوکر اسکول پہنچ گئی۔ ابھی اس کی کلاس شروع ہوئی تھی کہ ایک کلاس فیلو دیمتریوز پاگورچیز کلاس میں داخل ہوااور اس نے شاٹ گن سے اپنے ہم جماعتوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ اس نے اندھادھند فائرنگ نہیں کی بلکہ تاک تاک کر نشانے لگائے۔ اس کی فائرنگ سے دو ٹیچرز سمیت دس طلباوطالبات مارے گئے اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے۔ سترہ سالہ سبیکا بھی روزے کی حالت میں پاگورچیزکی فائرنگ کا نشانہ بن گئی۔ کیا یہ سنگدل لڑکا کوئی مسلمان تھا؟ کیا یہ جنونی طالب علم کسی اسلامی مدرسے سے پڑھ کرآیا تھا؟ کیا اس دہشت گرد نے پاکستان میں تربیت حاصل کی تھی؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ پاگورچیز امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس نے امریکہ میں ہی اسلحہ چلاناسیکھا اور اپنے ہی اسکول میںاپنے ہی کلاس فیلوز پر گولیاں برسادیں۔ کیا اس ایک جنونی طالب علم کی وجہ سے ہم سب امریکیوں کو دہشت گرد قراردے دے سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ سبیکاشیخ کی موت نے امریکیوں کویہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردوںکا نہ کوئی مذہب ہوتاہے نہ قوم ہوتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ مسلمانوں اوربالخصوص پاکستان کو دہشت گردی کے طعنے دیتا رہتا ہے لیکن ایک امریکی نوجوان کے ہاتھوں ایک پاکستانی طالبہ
سمیت دس دیگر افراد کے قتل نے ٹرمپ کو غلط ثابت کردیا۔ سبیکا کی موت نے واضح کیا کہ دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے امریکہ کا بھی مسئلہ ہے۔ دہشت گرد صرف پاکستان میں نہیں امریکہ میں بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وہ پیغام ہے جسے ٹرمپ کو سمجھنا ہوگا۔ کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکی حکومت ہر سال مختلف ممالک کے 900مسلمان طلباوطالبات کو ہائی اسکولوں میں پڑھانے کے لئے بلاتی ہے۔ یہ طلباو طالبات عام طورپر ہاسٹل کی بجائے کسی امریکی گھرانے کے مہمان بنتے ہیں تاکہ امریکی کلچر کو سمجھ سکیں۔ اس ایکسچینج پروگرام کا مقصد مسلم ممالک کے نوجوانوں اور امریکی نوجوانوں کو قریب لانا ہے لیکن سبیکا کی موت اس پروگرام کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے تاہم سانتافی ہائی اسکول کے سانحے نے پاکستان اور امریکہ کے لوگوں کو ایک سانجھے دکھ کے رشتے میں باندھ دیاہے۔ سبیکا کی موت پر صرف پاکستانیوں نے نہیں بلکہ امریکیوں نے بھی آنسو بہائے اور دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کا دکھ بانٹتے رہے۔ ہم پاکستانی تو یہ برملاکہتے ہیں کہ ہم ایک پاگورچیز کی وجہ سے پورے امریکہ کو ایک غیرمحفوظ اور دہشت گرد ملک قرار دینے کے لئے تیارنہیں لیکن کیا صدر ٹرمپ یہ کہنے کی اخلاقی جرأت کریںگے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردوںکی آماجگاہ نہیں سمجھتے بلکہ پاکستان بھی سبیکا شیخ کی طرح مظلوم ہے جہاں ہزاروں بیگناہ اور معصوم افراددہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں؟
سانتافی ہائی اسکول کے سانحے کے بعد امریکہ میں گن کلچر کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے لیکن افسوس کہ امریکہ میں بہت سے لوگ ابھی تک یہ کہہ رہے ہیں کہ پاگورچیز جیسے نوجوان اس لئے قاتل نہیں بنتے کیونکہ انہیںاسلحہ آسانی کے ساتھ میسر ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسے واقعات کی اصل وجہ نوجوانوں میں منشیات کا استعمال اور ویڈیو گیمز کھیلنا ہے۔ پاگورچیز ویڈیو گیمز کاشوقین تھا لیکن منشیات استعمال نہیں کرتا تھا۔ سی این این کی تحقیقات کے مطابق پاگورچیز بظاہر ایک کم گو طالب علم تھالیکن کچھ دن پہلے اس نے اپنی ایک ہم عمر کلاس فیلو شانافشر کے ساتھ دوستی قائم کرنے کی کوشش کی اوراسے اپنے ساتھ ڈیٹ پر چلنے کی دعوت دی۔ شانا فشر نے پاگورچیز کو انکارکردیا جب اس نوجوان کا اصرار بڑھا تو ایک دن شانا فشر نے کلاس میں کھڑے ہوکر بلند آواز میں پاگورچیز کو کہا میں تمہارے ساتھ ڈیٹ پر نہیں جائوں گی۔ پاگورچیز نے بھری کلاس میںاس انداز کو اپنی توہین سمجھااور بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اس کے گھرمیں شاٹ گن بھی موجود تھی اور 38بور کا پستول بھی موجود تھا۔ اس نے آسانی کے ساتھ گولیوں کا بندوبست کیا اور ایک دن صبح ہی صبح کلاس میں آ کر
شانا فشر سمیت ان ہم جماعتوںکو نشانہ بنایاجنہیں وہ پسند نہیں کرتاتھا۔ گرفتاری کے بعد اس نے پولیس کوبتایا کہ وہ سب کو نہیں مارنا چاہتا تھا اس نےایسے ہم جماعتوں پرگولی نہیں چلائی جنہیں وہ پسند کرتا تھاتاکہ بعد میں وہ لوگوں کو میری کہانی بتا سکیں۔ پاگورچیز کی کہانی یہی تھی کہ اس نے اپنی کلاس فیلو شانافشر کی طرف سے ڈیٹ پر جانے سے انکار کو توہین سمجھا اور اس بچی کو اس کے کئی ساتھیوں سمیت قتل کردیا۔ دس افراد کےاس قاتل کوموت کی سزا نہیں ملے گی کیونکہ ٹیکساس میں 18سال سے کم عمر کے قاتلوں کو صرف عمرقید کی سزا ملتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر پاگورچیز کو آسانی کے ساتھ اسلحہ میسر نہ ہوتا تو شاید وہ دہشت گرد نہ بنتا۔ کچھ دن پہلے نارووال میں ایک گمراہ نوجوان نے وزیرداخلہ احسن اقبال پرپستول سے قاتلانہ حملہ کر دیا تھا کیونکہ اسے بھی آسانی کے ساتھ اسلحہ میسرتھا۔ اگر ہم دہشت گردی کم کرنا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کی اسلحےتک آسانی سے رسائی کو ختم کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں امریکہ کو ایک مثال قائم کرنی چاہئے کیونکہ سپرپاور سترہ سال کے پاگورچیز کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ سبیکا شیخ کا دکھ ایک طاقت بن سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشروں کو ناجائز اسلحے سے پاک کردیں تو کوئی سبیکا قتل نہ ہوگی۔