جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیوروا ور مرکزی آفس برلن MCBیورپ کے مطابق گذشتہ دنوںپاکستان و برصغیر کے نامور قوال گھرانہ کے عالمی شہرت یافتہ رکن،حاجی غلام فرید صابری کے فرزند،قوالی کے منفرد فنکار،امجدفرید صابری کو انتہائی بید ردی ،سنگ دلی،بے رحمانہ اور بزدلانہ طور پر لیاقت آباد،کراچی کے پل پرسے کار میںگزرتے ہوئے گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔اس ناگہانی حادثہ پر پوری قوم غمزدہ ہے۔دنیا بھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔یہ شہادت اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ لوگوں کو اب تک اس کا یقین نہیں آرہا۔
دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کی طرف سے تعزیتی پیغامات اور قاتلوں کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔اس بارے میںاپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے چیر مین ایشین جرمن رفاہی سوسائٹیAGRS، سینئر رہنما و چیف کوآرڈینیٹرپاکستان عوامی تحریکPAT یورپ ،تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے میڈیا کوآرڈینیٹر برائے یورپ، سرپرست منہاج میڈیا کوآرڈینیشن بیوروMCB یورپ،چیف ایگزیکٹئو ایشین پیپلز نیوز ایجنسیAPNAانٹرنیشنل اورعالمی چیرمین ایشین پریس کلبز ایسوسی ایشنAPKAانٹرنیشنل،مشہور و معروف عالمی ایشین صحافی و شاعرمحمد شکیل چغتائی نے کہا کہ”سب سے پہلےمیںاپنی،AGRS،PATیورپ،MCBیورپ،APKAانٹرنیشنل و APNAانٹرنیشنل کی جانب سے اس بہیمانہ قتل کی پر زور اور شدیدمذمت کرتے ہوئے حکام بالا سے پر زورمطالبہ کرتا ہوں کہ امجدصابری کو شہید کرنے والے بد بخت قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔یہ ظالم درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔کراچی میںدہشت گردی کا پھر سے بڑھتا ہوا رجحان قابل تشویش اور باعث غور و فکر ہے۔اسکو روکنا ہر حال میں ضرروری ہے۔حکومت وقت اور عسکری قوتوں کو اس بارے میں مل کر قدم اٹھانا چاہئے۔یہ ضرب عضب کی کامیابیوںپر پردہ ڈالنے کی مذموم سازش ہے،جو افواج پاکستان کے لئے بھی لمحہء فکریہ ہے۔”
ا مجد صابری کے بارے میںاپنا انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے شکیل چغتائی نے کہا کہ”سمجھ نہیں آتا کہاں سے شروع کروں؟کیسے اپنے کرب کا اظہار کروں؟میں تو اس سے کبھی ملا ہی نہیں،اس کو قریب سے جانا ہی نہیں۔ہاں میں اس کے والدحاجی غلام فریدصابری اور چچا مقبول احمد صابری سے ضرور ملا،جب صابری برادران کا برلن میںپہلا پروگرام ہوا،جو انجمن پاکستان کے اسوقت کے صدر ریاست خان، انکے ساتھی انوارالحق شاد،وزیر ملک اور غالباً سہیل احمد نے مل کر کروایا تھااوربڑا شاندار اور کامیاب پروگرام تھا۔ انکے علاوہ جرمنی میں مقیم انکے ایک عزیزمحمودصابری قوال میرے اچھے دوستوں میںشمار ہوتے ہیں۔ لیکن میںامجد صابری کو غائبانہ طور پرضرور جانتا تھا،جو اپنی آواز، کلام اورمیٹھی باتوں سے ٹی وی کے ذریعہ میرے دل میں جگہ بنا چکا تھا ۔لہٰذا اس کا حق بنتا ہے کہ میں اسکے بارے میں کچھ کہوں۔گو یہ کام ان لمحات میں مشکل بہت ہے۔ذرا سوچئے کل تک ایک خوش باش، خوش و خرم،خوش اخلاق،زندہ دل، زندگی سے بھر پور شخص آ ج اس دنیا میں نہیں رہا۔یہ کیسے ممکن ہے؟ کون مان لے؟اس کا کس طرح یقین کر لے؟مگریہ ظلم ہو چکا،یہ کربلا گزر گئی،یہ قربانی توہو چکی۔حمد باری تعا لیٰ کرنے والے کی،ایک عاشق رسولۖ کی،ایک محب علی رضی اللہ تعالیٰ واہل بیت کی،ایک صوفی منش کی،ایک خادم دین اسلام کی۔اب صرف تعزیت ہے،مذمت ہے،صبرکی تلقین ہے،تسلی کے الفاظ ہیں،غم وغصہ ہے، دکھ ہے،دردہے،بے بسی ہے،فریاد ہے۔آنسو ہیں کہ
تھمتے ہی نہیں،چیخیں ہیں کہ رکتی ہی نہیں،دل دھڑکنا بھول گیا ہے،دماغ نے سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔بس ایک یاد ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔
ایک زخم ہے جو کبھی نہیں بھرے گا۔ایک دعا ہے،جو ہمیشہ لبوں پر جاری رہے گی کہ اللہ اس کی مغفرت کرے، اسکو قبر میں حضورۖ کی وہ قربت نصیب کرے،جس کی اس نے زندگی میں تمنا کی تھی۔خدائے ذوالجلال اسکے اہل خانہ کواستقامت، حوصلہ اور صبر جمیل عطافرمائے۔ اسکے معصوم بچوں کے مستقبل کو تابناک بنائے ،ان کوبہترین تعلیم و تربیت نصیب ہو۔ تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنے باپ دادا کا نام پھر سے روشن کر سکیں۔پوری دنیا میں اس پاک دھرتی ،پاکستان کی عظمت کو قوالی کے میدان میں پھر سے بام عروج تک پہنچا سکیں۔ آمین،ثم آمین۔”