سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کو اپنے حق میں گواہ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
سپریم کورٹ میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔
طلال چوہدری کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت درگزر کا مظاہرہ کرے، عدالت شواہد ریکارڈ ہونے کی سطح پر بھی مقدمے کو ختم کرسکتی ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ دلائل دیں، 342 کا بیان قلمبند کریں گے، فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے۔
دوران سماعت طلال چوہدری نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ میرے خلاف جو گواہ آئے میں نے انہیں سنا، میرا پہلا بیان تقریر نہیں بلکہ پریس ٹاک تھا، پریس ٹاک کو ایڈٹ کیا گیا، میرے جملوں کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا گیا، میری تقریر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی،27 جنوری کی تقریر کسی جج کے لیے نہیں تھی۔
عدالت نے طلال چوہدری سے سوال کیاکہ کیا دکھائی گئی ویڈیو کلپ آپ کی ہے؟ اس پر وزیر مملکت نے کہا کہ مکمل ویڈیو میری نہیں اس کوکاٹا گیا۔
عدلت نےطلال چوہدری سے استفسار کیاکہ کیا بابا رحمتے سے متعلق جملےآپ کے تھے؟ اس پرطلال چوہدری نےجواب دیاکہ بہت سےجملے کاٹے گئے اور جوڑے گئے، میں نے یہ بھی کہا بابا رحمتے کی ہم عزت کرتے ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا عدالت میں پی سی او بت بیٹھنےکی بات آپ نے کی ہے، طلال چوہدری نے جواب دیا کہ میری اس بات کو پورا پڑھا جائے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات کی ٹون اور الفاظ عدلیہ مخالف تھے، یہ الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔
طلال چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ میں نے کوئی توہین عدالت نہیں کی، میں عدالت کی عزت کرتا ہوں، میری ٹاک کے ٹکرے ٹکرے جوڑے گئے، پہلے بھی توہین عدالت کے الزامات لگے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کرتےہوئے طلال چوہدری کو اپنے حق میں گواہ پیش کرنےکی ہدایت کردی۔