تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
بداصل وبداعمال ،بدعہد و بدکار ،بدباطن و بداطوار طالبان نامی دہشت گرد مسلمان تو کجا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں۔ لازمۂ انسانیت سے تہی یہ نابکار وناہنجار ناستک ہیں، پکّے ناستک کہ ادیانِ عالم میںسے کسی دین کے ساتھ بھی اِن کاکوئی تعلق نہیںکہ کوئی بھی دین وحشت وبربریت کی اجازت نہیں دیتا۔ لادین وحشیوں کا یہ بزدِل ٹولہ دینِ مبیں کی آڑمیں گاہے بگاہے اپنی یزیدیت کے ثبوت فراہم کرتارہتا ہے۔ کہنے کوتو یزیدبھی مسلمان ہی تھالیکن حقیقت یہ کہ
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
میرادین تو بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور ہتھیارنہ اٹھانے والوں کے لیے جائے اماں ہے لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جن کا زور ہی معصوم اور بے گناہ لوگوں پہ چلتاہے۔ اِن بَدخُو و بَدنہاد وحشیوں کی دست بردسے کوئی مسجد محفوظ ہے نہ مکتب۔ پہلے جی ایچ کیو راولپنڈی کی پریڈلین مسجد میں بارگاہِ ایزدی میںجھکے نمازیوں پر حملہ آور ہوئے اور مسجد کے درودیوار کو معصوم شہیدوں کے پاکیزہ لہو سے رنگین کرگئے پھر آرمی پبلک سکول پشاورکے معصوم فرشتوں کو خونم خون کیا اور اب پشاور کے نواحی علاقے بَڈھ بیر کے متروک فضائی مستقر کی اقامتی کالونی پر چڑھائی کی اور نشانہ یہاںبھی ربّ ِ لَم یَزل کی بارگاہ میں سجدہ ریزنمازی۔
افواجِ پاکستان کے جذبۂ شوقِ شہادت سے لبریز جرّی جوانوں نے ہرجگہ اور ہر مقام پراِن وحشیوں کو واصلِ جہنم کیا۔ فضائی مستقر ( ایئربیس کیمپ) پر حملہ کرنے والے تمام ، 13 دہشت گرد جہنم کا ایندھن بنے لیکن 20 نہتے نمازیوں سمیت 29 افراد بھی شہادت کا جام پی کر بارگاہِ ایزدی میں سرخ رُوہوئے ۔ یہ شوقِ شہادت ہی تھاجونوجوان کیپٹن اسفندیار بخاری کو متروک فضائی مستقرتک کھینچ لایا۔ اُن کاتو کوئیک ریسپانس فورس سے براہِ راست کوئی تعلق ہی نہیںتھا لیکن جونہی اُنہوںنے دہشت گردوں کے حملے کے بارے میںسنا، اُن کے تَن بدن میںشوقِ شہادت انگڑائیاںلینے لگا۔ وہ اپنے آفیسرسے اجازت لے کرکوئیک ریسپانس فورس میںشامل ہوئے اور یوںیہ ثابت کرچلے کہ
جان دی ،دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
عشقِ حقیقی سے لبریز اِن جری جوانوںکا تو مطلوب ومقصودہی شہادت ہوتاہے ۔اسی ایئربیس کے 3 ٹیکنیشنز اگرچاہتے تواپنی جان بچاسکتے تھے۔ ویسے بھی ایک ٹیکنیشن کاتو جنگ سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہوتا لیکن یہ بھی نعرۂ تکبیربلند کرتے ہوئے نکلے اور دہشت گردوں پر ٹوٹ پڑے ،5 دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کیا اور خود بھی رتبۂ شہادت سے سرفرازہوئے۔ باقی 8 وحشیو ںکو کوئیک ریسپانس فورس نے جہنم کاایندھن بنایا۔اِس سانحے کے فوری بعدچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اورایئرچیف مارشل سہیل امان پشاورپہنچ گئے، وزیرِاعظم میاںنواز شریف بھی اپنا”لواری ٹنل” کادورہ منسوخ کرکے پشاورپہنچے اورزخمیوںکی عیادت کے علاوہ شہداء کی نمازِجنازہ میںبھی شرکت کی۔
اعلیٰ ترین سیاسی وعسکری قیادت کایوں اکٹھے ہونابہرحال یہ توثابت کرگیاکہ جہاں قومی وقارکا سوال اُٹھے گا۔ وہاںپوری قوم ایک صفحے پرہو گی۔ اِس میںکوئی شک نہیںکہ دہشت گردوںکی کمرٹوٹ چکی اورروزانہ کی بنیادپر ہونے والے بم دھماکے اور دہشت گردحملے اب مہینوںمیں ہوتے ہیں۔ اِس لیے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ یہ بجھتے دیئے کی ”آخری لَو”ہے ، دیاجب بجھنے لگتاہے تواُس کی لَوایک دفعہ بھڑکتی ضرورہے ۔ہماری سیاسی وعسکری قیادت کواب صرف اِس ”بھڑکتی لَو” کاہی سدّ ِباب کرناہے۔ شنیدہے کہ سول اورملٹری قیادت اگلے تین دنوںمیں کسی بھی وقت سَڑجوڑ کراِس اَمرکا جائزہ لینے کے لیے بیٹھے گی کہ اِس ”بھڑکتی لَو” کاسدّ ِباب کیونکر ممکن ہے۔
آئی ایس پی آرکے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ حملہ آورنہ صرف افغانستان سے آئے تھے بلکہ حملے کی منصوبہ بندی بھی افغان سرزمین پرہی کی گئی اورافغانستان سے ہی اُنہیں ہدایات مِل رہی تھیں۔ اُنہوںنے یہ بھی فرمایاکہ دہشت گردی کی اِس واردات میںافغان حکومت یاریاست ملوث نہیں۔ ماناکہ افغان حکومت اِس دہشت گردی میں براہِ راست ملوث نہیںہوگی لیکن یہ تو اب کوئی رازنہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” پاکستان میںدہشت گردی کے واقعات میںملوث ہے اورافغانستان اِس کابیس کیمپ جہاںبھارت نے دہشت گردوںکی تربیت کے لیے اڈے قائم کررکھے ہیںاور اِن اڈوں کے عوض افغان حکمرانوںکو بھاری رقوم بھی عطاکی جاتی ہیں۔
حملہ آوروں کا نمازِ فجرکے وقت خانۂ خُدامیں گھُس کرنمازیوں کو بے دریغ شہیدکرنا ثابت کرتاہے کہ یہ دہشت گرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ یقیناََاسلام اورپاکستان دشمن قوتوںکے آلۂ کارتھے اور یہ تو سبھی جانتے ہیںکہ بھارت اورامریکہ کواقتصادی راہداری قبول ہے نہ پاکستان میںامن وامان ۔ایک طرف لائن آف کنٹرول پر چھیڑ چھاڑ اوردوسری طرف افغانستان کے راستے دہشت گردی کوبھارت نے اپناوطیرہ بنارکھا ہے۔
مقصدوہی جس کاہم اپنے کالموں میں کئی بار ذکر کرچکے کہ ایٹمی پاکستان کی اقتصادی مضبوطی بھارت کوکسی بھی صورت قبول نہیں کیونکہ اگرایسا ہوگیا تو خطے میں ایک تواُس کی چودھراہٹ پربراہِ راست ضرب پڑے گی جوبھارتی دہشت گردوںکے لیے یقیناََ ”ضربِ عضب”سے کم تَرنہیں ہوگی اور دوسرے انتہا پسندانہ ذہنیت کے حامل مخبوط الحواس بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا ”اکھنڈبھارت” کاخواب بھی ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔
دوسری طرف امریکہ بہادرکو بھی پاک چائنا اقتصادی راہداری قبول نہیں کہ جہاںایک طرف اُس کے دِل میں”ایٹمی پاکستان” کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے تودوسری طرف یہ ”عالمی چودھری” نہیں چاہتا کہ چین جیسی کوئی طاقت اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراُس کی ” چودھراہٹ ” کو چیلنج کرے ۔ وہ تو گوادر کی بندرگاہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ آورہوا تھامگر ہوایہ کہ اُس نے افغان جنگ میں اپنی معیشت کوتباہی کے دہانے پرپہنچا دیا لیکن پھربھی گوادرکی بندرگاہ ہاتھ آئی نہ ”گریٹر بلوچستان ” کاخ واب پوراہوا۔ اقتصادی راہداری پراُس کی تلملاہٹ کااصل سبب یہ ہے کہ نہ صرف اقتصادی طورپر مضبوط چین مزید مضبوط ہوجائے گا بلکہ پاکستانی معیشت بھی مضبوط بنیادوںپر استوار ہوجائے گی جو امریکہ اوربھارت دونوں کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہوگا۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر