تحریر: خیال اثر مالیگانوی
بقر عید کی آمد کے ساتھ ہی مسلم سماج میں ہر طرف قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ حالیہ دور میں عید قرباں کی اہمیت کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے اور اب پوری توجہ قربانی نہیں ریاکاری پر مرکوز کر دی گئی ہے۔
ایک طرف مختلف حیلے بہانے سے حکومت اس عظیم فریضے کے لئے روڑے اٹکاتی ہے تو دوسری طرف خود مسلم سماج کی بے جا ریاکاری مزید الجھن پیدا کر دیتی ہے۔ عیدالاضحی وہ مقدس تہوار ہے جو ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم توحیدی کارناموں کی یادگار اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی استقامت کی یادگار ہے۔ وہ ابراہیم جنہیں اللہ نے اپنا خلیل بنا کر رفعت و عظمت کے عظیم مرتبے پر فائز کیا۔
وہ ابراہیم علیہ السلام جن کا اللہ نے ہر طرح سے امتحان لیا اور ابراہیم علیہ السلام ہر معرکہ پر پیکر استقامت بنے نظر آئے۔ سب سے پہلے ضعیفی میں ان کو فرزند کی بشادت اس کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے فوری بعد حکم ہجرت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہجرت تو ملا مگر کیسا؟ کیا ہم اس کا تصور بھی کر سکتے ہیں۔ اللہ کی جانب سے بے آب و گیاہ صحرا میں ننھے اسماعیل اور بیوی ہاجرہ کو چھوڑ کر آنے کا حکم۔ حضرت ہاجرہ کی استقامت کو لاکھوں سلام جنہوں نے اپنے شوہر کی تابعداری اور حکم پروردگار پر آمادگی کا اظہار کیا۔
مختصر توشہ جو ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہ و اسماعیل کے لئے رکھا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد اس صحرا میں پیاس کی شدت کا اندازہ کیا آپ اور ہم کر سکتے ہیں؟ وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔ حضرت ہاجرہ کو اپنے لخت جگر کی شدتِ پیاس پریشان کر رہی تھی اور تلاشِ آب میں حضرت ہاجرہ نے صفا اور مروہ کے سات چکر لگائے۔ اللہ نے حضرت ہاجرہ کی اس حرکت کو پسند فرما کر ان سات چکروں کو فریضہ حج میں شامل کر دیا۔ ادھر ننھے اسماعیل کی ایڑی رگڑنے سے زمزم جیسا شافی چشمے نے جنم لیا۔ وہ زمزم جس میں اللہ نے تمام بیماریوں کی شفا رکھ دی۔ ابھی حضرتِ ابراہیم کا امتحان ختم نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت اسماعیل کی بڑھتی عمر کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنی سب سے زیادہ محبوب چیز کی قربانی دیں اور حضرت اسماعیل علی نبینا علیہ الصلوٰة والسلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ مگر اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ فدیہ کر کے اس قربانی کو قبول کر لیا اور رہتی دنیا تک کو فریضہ قربانی کا حکم دے دیا۔
قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ ہم اپنے محبوبِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزیں قربان کرنے کا جذبہ رکھیں۔ مگر عہد حاضر میں جہاں دیکھئے فریضہ قربانی میں ریاکاری شامل ہو چکی ہے۔ اب جانوروں کی خریدو فروخت کے معاملے میں ریاکاری کی جاتی ہے۔ ایسے جانور جو فربہ ہو انہیں قربان کرنے کا حکم ہے۔ اس حکم کی روشنی میں صاحب ایمان فربہ جانوروں کی تلاش کرتا ہے مگر جہاں اسے فربہ جانور مل جائے اس کی بے جا نمائش شروع کر دی جاتی ہے۔ جانوروں کی خریدی کے وقت یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے قیمتی ہونے کو لوگ بھی دیکھ سکیں۔ اونچی قیمتیں دے رک جانور خریدے جاتے ہیں اور پھر سب کو ان کی قیمت بتا کر اکثر افراد اپنی امارت اور دولت مندی کا رعب جماتے ہیں۔
اسلام نے ہر اس فعل سے منع کیا ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہو مگر ہندوستان جہاں مسلم اور اسلام کے ہزاروں دشمن ہیں، قربانی کے گوشت کو کھلے عام لے کر چلا جاتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی دل آزادی ہوتی ہے جو گوشت خور نہیں مگر ناداں مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ اس صورت میں دل آزاری اور ریاکاری دونوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ہر طرف جانوروں کی پکڑ دھکڑ کی جاتی ہے اور اس میں ان نام نہاد ”گئو رکھشا” والوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو جانوروں پر خود ہر طرح کا ظلم روا رکھتے ہیں۔ اکثر عید قرباں کے موقع پر ”جانوروں کے تحفظ” کا معاملہ اٹھا کر مسلمانوں کو فریضہ قربانی سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اس میں خود مسلمانوں کا بھی عمل دخل ہے۔ اگر مسلمان شرعی پابندیوں کے ساتھ جانوروں کی خریدو فروخت کرے اور شرعی زکات پر فریضہ قربانی انجام دے تو یقینا ان لوگوں کو منہ کی کھانی پڑے گی جو مسلمانوں کو ہر وقت ان کے مذہبی فریضوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فریضہ قربانی کو عہد حاضر میں تماشہ بنا لیا گیا ہے۔ ریاکاری سے پرے ہوکر اسلامی قوانین کی روشنی میں اس مقدس فریضے کو انجام دینے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔قربانی کے تینوں دنوں میں وہ ریاکاری کی جاتی ہے کہ الامان والحفیظ۔ بہترین پکوان بنائے جاتے ہیں اور ان کو باضابطہ ریاکاری کے ساتھ تناول کیا جاتا ہے جب کہ بہت سے مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں جو صاحب استطاعت نہیں ہوتے کہ وہ قربانی کر سکیں اس لئے اہل زر حضرات کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنے قربانی کے گوشت میں انہیں بھی شامل کرلیں اور انہیں بھی وہ خوشی دے سکیں جو قربانی کی اصل روح ہے۔
المختصر ہم نے قربانی کی اصل روح کو فراموش کر دیا۔ اس لئے آج ہم قربانی دینے کے باوجود رسوا ہو رہے ہیں۔ اب بھی اگر ہم نے سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کو اپنا لیا اور استقامت اسماعیل علیہ السلام کو پا لیا اور جذبہ ہاجرہ علیہ السلام دلوں میں پیدا کر لیا تو ہم سے وہ رسوائی اور ذلت دور ہو سکتی ہے جس کا ہم شکار ہو رہے ہیں۔ اب بھی اگر ہم نے قربانی کو قربانی سمجھ کر اور حکم پرودگار سمجھ کر ادا کیا تو ہم پھر سے سرخروئی اور سربلندی حاصل کر سکتے ہیں۔ آج بھی ہمارے لئے آگ کو گلزار بنایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم فریضہ قربانی کی اصل روح کو تلاش کریں اور اپنے کردار و عمل سے اللہ کے حضور انکساری اور عاجزی کا اظہار کریں۔ اللہ بے نیاز ہے، وہ ہماری نیازمندی کی لاج رکھ کر ہمیں ہر جگہ سرخروئی عطا کرے گا۔
تحریر: خیال اثر مالیگانوی