تحریر: شاہ بانو میر
اسلام کی حقانیت کو سمجھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ‘ اس کا کلام اس کا مفہوم اسی کے اندر جذب ہوتا جس نے پوری سچائی سے اللہ سے مانگا ہو ‘ افسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا انسان جس نے کبھی قرآن پاک کو کھول کر اس کے ترجمے کو پڑہا ہی نہ ہو لیکن تحریر میں اسلام کے بیان کردہ احکامات کو توڑ موڑ کر بیان کرتا ہے جو قابل مذمت ہے۔
اللہ پاک نے یہ دنیا اس ترتیب سے بنائی ہے کہ کہیں کوئی خلا یا سقم موجود نہیں ہے مگر افسوس کہ ہم کم ہی غور کرتے ہیں البتہ جہاں ذرا سا دین متنازعہ نظر آئے تو بغیر کسی ٹھوس دلیل کے ہم وہاں لکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں جو شدید عذاب کا باعث بن سکتا ہے کچھ روز سے فیس بک پر کی قسم کی پوسٹ دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کہیں لکھا ہوا کہ اتنی مہنگی قربانی دی جا رہی ہے۔
غریب کی بیٹی گھر بیٹھی ہے کہیں اسی سے ملتی جلتی اور باتیں تو خُدارا پوسٹ کرنے سے پہلے صرف اتنا سوچ لیں کہ یہ حکمَ الہیٍ ہے کہ آپ پر قربانی فرض ہے اگر آپ صاحبَ استطاعت ہیں آپکو مہنگائی دکھائی دے رہی ہے اور اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ آپ نے اپنی قربانی پر بحث نہیں کرنی نہ اس کی قیمت بتانی ہے اور نہ ہی مہنگائی کا رونا رونا ہے۔
آج غریب کی بیٹی اگر گھر بیٹھی ہے تو اسکے کئی معاشرتی عوامل ہیں جن کے ہم سب ذمہ دار ہیں جو اسلام نے ہمیں نہیں دئے بلکہ ہمارے لالچ نے ہمیئں ودیعت کئے ہیں جہیز کی لعنت اسلام نے نہیں دی بلکہ برصغیر پاک و ہند کے کلچر نے دی ہمارے آباء مسلمان تو ہو گئے لیکن دنیا داری کو اندر سے نکالنے ملیں ناکام رہے آج اگر قوم کے بیٹے غیرت مند ہو جائیں اور والدین کو برملا کہہ دیں کہ ہم بغیر جہیزکے شادی کرنا چاہتے ہیں سسرال والوں کے کپڑے اور دیگر تحاٰئف ختم کیجئے کھانا بند کیجئے نبی ً کی سنت کو زندہ کیجیے مختصر لوگوں کے ساتھ فرض کی ادائیگی پاکستان کا المیہ ہے کہ سفید پوش غریب گھروں کی بچیاں اچھے اوصاف کے باوجود اچھے رشتوں سے محروم ہیں وجہ جہیز جیسی لعنت ہے لالچ ہے سر میں چاندی کے تاراور اس کے بعد مایوس زندگی کے شب ور ورز ہم سب کو دین کیلئے حجت بنانے کی بجائے اپنے معاشرتی رویے درست کرنے چاہیے تا کہ بیٹیوں کے گھر بسائے جا سکیں۔
آج جہیز کی لعنبت ختم کیجئے پھر دیکھئے بیٹیاں گھر نہیں بیٹھی ہیں گی قربانی کو زیر بحث مذاق میں لانا انتہائی افسوس ناک ہے دین سے اسلام سے غیر سنجیدہ رویہ ہے یہی وہ کم علمی ہے جو آج ہمارے گرد کفار مکہ کی طرح احاطہ کئے ہوئے ہے اور اللہ پاک پھر اسی غفلت کو بے خبری کو مزید بڑھا کر عذاب الیم سے ہمکنار کرتا ہے حضرت ابراہیم ّ کو یاد کریں بیٹے سے بڑھ کر تھی کوئی چیز جو اتنی دعاوؤں سے ملا ہو حکم الہیٍ ہوا اور کیسے ایک باپ بے دھڑک بیٹے کو پوچھ کر قربانی کا ارادہ کرتا ہے۔
ذرا سوچئے اپنے لعل کی گردن پر چھری چلانا یہ سوچنا ہی کتنا اذیت ناک ہے؟ ایسی عظیم قربانی کہ جس سے انکار نہیں کیا بلکہ عمل کیا اور اللہ پاک کا کرم دیکھیں کہ کس حد تک آزمایا جسے وہ خلیل اللہ کہتا ہے قرآن پاک میں ایک ہی بات سمجھ آئی اللہ کی محبت انسانوں میں دیکھنی ہے تو سوچ لیں کہ محبت رتبہ اور قرب جتنا زیادہ ہوگا۔
آزمائش اور قربانی اتنی ہی بڑی دیکھنے کو پڑھنے کو ملے گی آپ احباب سے گزارش ہے کہ موضوعات بے شمار ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے تنقید کی جا سکتی ہے لیکن احکامَ الہیٍ پر تنقید اور بحث نا مکمل علم کے ساتھ شیطانی سوچ کا نتیجہ ہے آیئے بطور امت اپنی سنجیسہ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے کسی بھی حکم الہیٍ پر بحث یا تنقید سے گریز کریں گے جزاکا للہ خیر واحسن الجزا۔
تحریر: شاہ بانو میر