تحریر : ممتاز ملک
آج کل بیرونی برائے فروخت اذہان خرید کر ہمارے نیم ملا اور ملانیاں کماو ٹی وی پر زور و شور کیساتھ فرضی عبادات میں کیڑے نکالنے اور انہیں متنازعہ بنانے میں دن رات ایک کیئے ہوئے ہیں انہیں ہر اسلامی عبادت وقت کا ضیاں اور اللہ کی راہ میں خرچ فضول خرچی لگتا ہے . لیکن نہیں دکھے گا تو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ستر ہزار کا موبائل اور جثے پر پہنا تیس ہزار کا جوڑا کبھی بھی فضول خرچی نہیں لگے گا . اور نہ وہ اس کی رقم کسی ضرورت مند کو دینے کا کبھی سوچیں گے۔
یہ سچ ہے کہ حج زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے. اس سے زیادہ کی استطاعت ہے تو اس رقم کو کسی اور کو پہلی بار کے لیئے حج بدل میں دیا جا سکتا ہے. لیکن سال میں ایک بار عید الاضحی کے موقع پر قربانی ہر کمانے والے، اپنے گھر اور سواری رکھنے والے پر اللہ کی راہ میں جانور کی صورت پیش کرنا اللہ کا حکم ہے اور اسے کوئی بھی مائی کا لعل چیلنج نہیں کر سکتا اور جو ایسی ناپاک جسارت کرے اسے دین اسلام سے اپنا تعلق ختم سمجھنا چاہیئے۔
دوسری جانب معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو گھر میں دس لوگ بھی کما رہے ہیں سارا سال سارے اللے تللے، ہوٹلنگ، شاپنگ ہر موقع پر دس دس ہزار کے چار چار جوڑے بن رہے ہیں لیکن جیسے ہی عید قرباں کا موقع آتاہے تو گھر بھر میں فقر و فاقہ کا رونا پڑ جاتا ہے . اکثر تو خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے دو چار ہزار روپے کسی سے قرض بھی لے لیا جاتا ہے. تاکہ قسم کھا سکیں کہ بھائی ہم تو مقروض ہیں ہم پر قربانی فرض نہیں ہے۔
ملک سے باہر بیٹھے باپ، بھائی اور بیٹے کو آرڈر بک کروا دیا جاتاہے کہ بھئی اتنے بکرے کرنے ہیں ، اس اس کے گھر تو ران جانی ہے ورنہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔ گویا قربانی کرنا اسی قربانی کے دنبے کا فرض ہو گیا .جو پہلے ہی پاکستان میں بیٹھے مفت خوروں کے لیئے روز ذبح ہوتا ہے . اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک گھر میں چھ چھ لوگ کما رہے ہیں لیکن قربانی کا ایک ہی بکرا آئیگا اور اکثر باہر والے کی کمائی کا آئے گا . چاہے اس بھیجنے والے نے اپنے بچوں کو قربانی کا گوشت سنگھایا بھی نہ ہو اس دن. کہ ایک کی کمائی پر ایک ہی قربانی کی گنجائش تھی . سو وہ تو پچھلوں کو رانیں،دستیاں اور تکے کھلانے کو بھیج دیا . اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں اس دن بھی قصائی سے خرید کر گوشت. گویا آپ دو طرح سے گناہگار ہوئے۔
1- اس کے گھر میں فساد ڈالا( جو سسرالیوں کا پسندیدہ شیوہ ہوتا ہے ).
2- اسے قربانی کی سنت اپنی اولاد کو دکھانے اور سکھانے سے محروم کر دیا .
(وہ تو آپ کی آنتوں اور چھچھورپنے کی نظر ہو گئی )۔
سب سے خاص بات قربانی ہر انسان کے اپنے مال ہر لگتی ہے . اپنے گھر میں رہنے والا، اپنی سواری رکھنے والا ، ہر مسلمان صاحب نصاب ہوتا ہے . سارا سال موج اڑانے والے اور قربانی پر دبئی سے، امریکہ سے ،یورپ سے، باپ، بھائی اور بیٹے کی کمائی کا انتظار کرنے والے یاد رکھیں کہ وہ قربانی اس رقم کے بھیجنے والے کی ہوئی نہ کہ آپ کی جانب سے . اس لیئے محلے میں ٹیڑھے ٹیڑھے ہو کر چلنے سے پرہیز کریں . مرنے کے بعد آپ کے کام اس قربانی کے جانور کی اوجڑی بھی نہیں آنے والی۔
تحریر : ممتاز ملک