تحریر : عفت
گھر پہنچ کر اسے ہاتھوں ہا تھ لیا گیا ۔اس کا روم بہت اچھی طرح ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ہر طرف سفید اور سرخ گلاب تھے ۔ہانیہ کو شکل کا ملال دھلتا دکھائی دیا ۔کمال نے اسے منہ دکھائی میں ہیرے کی بہت خوبصورت انگوٹھی دی۔اگلے دن وہ ہنی مون پہ روانہ ہوگئے ۔پندرہ روزہ اس ٹور میں انھوں نے بہت سیر کی باالآخر وہ گھر لوٹ آئے ۔ہانیہ کافی حد تک ایڈجسٹ کر چکی تھی ۔اب معمول کی زندگی شروع ہو چکی تھی کمال کااپناذاتی فلیٹ تھا وہ جلد وہاں شفٹ ہو گئے کیونکہ وہ کمال کے آفس سے قریب تھا ۔سرمئی دھوپ ڈھل چکی تھی ہانیہ نے بہت دل لگا کر کھانا تیار کیا ،اور تیار ہو کر کمال کا انتظار کرنے لگی اس دوران اس کی مما کی کال آگئی ۔رانیہ کو اللہ نے بیٹے سے نوازا تھا ہانیہ نے باری باری سب سے بات کی اور مبارکباد دی جب فون بند ہوا تو شام کے سائے چھا رہے تھے اور کمال کا کوئی اتا پتہ نہ تھا ۔آخر اس نے کمال کے نمبر پہ کال کی اس نے کال کاٹ دی ہانیہ بہت پریشان تھی انجانا ماحول کیا کرے کیا نہ کرے ساس سسر بھی دوسرے شہر تھے ۔رات کے نو بجے دروازے پہ بیل ہوئی ۔ہانیہ نے کی ہول سے دیکھا تو کمال کھڑا تھا ،اس کی جان میں جان آئی وہ دروازہ کھول کے اس سے لپٹ گئی کہاں رہ گئے تھے آپ ؟ایک ناگوار سی بو اس کی سانسوں سے ٹکرائی اس نے بمشکل اپنی ابکائی روکی۔
کمال شراب کے نشے میں تھا ۔ہانیہ اس کو سہارا دے کر اندر لائی وہ دھڑام سے جوتوں سمیت بستر پہ دراز تھا ۔ہانیہ نے اس کے جوتے اتارے اور اس پہ کمبل دیا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس صورتحال میں کیا کرے ۔وہ خاموشی سے بیڈ کے دوسرے کنارے پہ لیٹ گئی ۔نجانے کیوں اس کا دل اندیشوں میں گھر گیا ۔سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی ۔صبح کھٹر پٹر سے اس کی آنکھ کھل گئی اس نے بیڈ پہ نظر دوڑائی کمال وہاں نہیں تھا پھر کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی ۔وہ جلدی سے اٹھی اتنے میں کمال کپ تھامے کچن سے برآمد ہوا ،آپ کب جاگے مجھے جگا دیا ہوتا؟ اس نے ہاتھوں سے بال سمیٹے اور اس میں کیچر اڑایا ۔کمال خاموش رہا اور کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کے چہرے کو غور سے تکتا رہا۔وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔یکایک وہ اٹھا اور گرم کافی اس کے ہاتھ پہ انڈیل دی ،ہانیہ نے ایک چیخ ماری اوراٹھ کر کچن میں بھاگی اور نل کے نیچے ہاتھ کر دیا
بے انتہا جلن ہو رہی تھی اس کی آنکھوں میں تکلیف سے آنسو آگئے۔کمال کا رویہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔وہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور اس کے بال پکڑ کر سر اپنی طرف موڑا ،وہ درد سے چلائی ۔چپ چپ ادھر آئو اس کی کلائی تھامے اسے بیڈ پہ بٹھایا اور فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اس کے ہاتھ کو تھام لیا گرم کافی نے اس پہ سرخ چھالے ڈال دیئے تھے ۔ان پہ برنال لگا کر اسے بیڈ پہ لٹا کر اس کا گال تھپتھپایا تم آرام کرو میں ناشتہ بنا کر ابھی لایا ۔کچھ دیر بعد وہ اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر اس کے منہ میں ڈال رہا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ کمال کے اس پاگل پن میں شدت آتی جا رہی تھی اب وہ اس پہ ہاتھ اٹھانے لگا تھا شراب پی کر اسے وحشیوں کی طرح بھنبھوڑتا ۔جان بوجھ کر اسے اذیت دیتا کبھی سگریٹ سے داغتا اس کے رونے اور چیخنے چلانے پہ وہ مسکراتا جیسے اسے کوئی روحانی خوشی مل رہی ہو۔رفتہ رفتہ اس کا پاگل پن بڑھتا جا ہا تھا دوسروں کے سامنے اس کا رویہ انتہائی محبت والا ہوتا کہ کسی کو شک بھی نہ گذرتا کہ اصلیت کیا ہے ۔ہانیہ کسے بتاتی کون تھا جو اس پہ یقین کرتا ۔ہانیہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی کمال کے آفس جانے کے بعد وہ سکون کا سانس لیتی کسی کو کچھ کہہ نہ دے اس ڈر سے کمال گھر کو باہر سے لاک کر جاتا ۔اسی دوران دانی کی آمد کی اطلاع آئی کمال نے ہانیہ کو دھمکی دی کہ خبردار تم نے کوئی بات اس کو بتائی۔ہانیہ چپ کی چپ رہ گئی،دو دن بعد دانی آیا کمال نے اس کا پرجوش ویلکم کیا سائے کی طرح ساتھ رہا ہانیہ کے خوب ناز نخرے اٹھاتا رہا جیسے ان کی زندگی انتہائی خوشگوار ہو ۔دانی دو دن رہا ۔اور کمال سے بہت متاثر ہو کر گیا۔
اس دن آسمان پہ سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ،کمال کچھ دیر پہلے ہی باہر سے آیا تھا اپنے کمرے میں آکر اس نے الماری سے وائن کی بوتل نکالی اور ہانیہ کو ساقی گری کا کہا اس کے چہرے پہ تشویش تھی وہ پریشان لگ رہا تھا ۔دو پیگ پینے کے بعد اس نے کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا نشے کے اثرات غالب آرہے تھے چلتے چلتے اسے ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑایا ۔ہانیہ نے اسے سہارا دیا اس نے غصے میں تپائی کو ٹھوکر ماری اور ہانیہ کے بال ہاتھوں میں جکڑ لیے اور اسے پیٹنا شروع کر دیا وہ نہایت بے دردی سے ہاتھ پائوں چلا رہا تھا اور ہانیہ کو پیٹ رہا تھا۔
ہانیہ کا سر بیڈ کے کونے سے ٹکرایا اور وہ بے سدھ ہوگئی۔کمال نے اس بیڈ پہ لٹایا اور اس کے ماتھے پہ بینڈیج کی اسے ہوش میں لایا ۔ہانیہ پھٹی پھٹٰی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔اس کا مہربان رویہ اب اسے اس کا دوغلا پن سمجھ نہیں آرہا تھا ۔سر کی تکلیف الگ ہو رہی تھی اس نے تکلیف سے آنکھیں موند لیں آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہوتے گئے۔
تحریر : عفت