تحریر : انجینئر افتخار چودھری
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن بڑی اداس بڑی بے قرار گزری گے چودھری ارشاد چیئرمین میرے پردادے پوترے بھائی کو آج سے تیرہ سال پہلے ہم نے منوں مٹی کے نیچے دفن کیا ایسا لگتا تھا کہ ایک جگنو دفن کیا ہے جس کی روشنی سے خانوادہ ء ملک علی شیر روشن تھا۔ہر وقت زیر لب مسکراتا میرا یہ بھائی اپر خانپور ہزارہ کا جگمگاتا ستارہ تھا۔جہاں بھی بیٹھتا رونقیں اس مجلس کا طواف کرتی تھیں اور فراز نے تو شائد اسی کے لئے کہا تھا سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں اگر یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں موضع نلہ تحصیل و ضلع ہری پور یوں تو پیر سوہاوہ روڈ بننے سے اسلام آباد کی پشت پر ندی ہرو کے کنارے ایک گائوں کی صورت میں ہماری محبتوں کا امین ہے ہمارا نشان ہے اتحاد کا امین متحد اتنا کہ لوگ مثالیں دیتے ہیں۔میرا یہ بھائی پاکستان بننے کے بعد سال دو سال بعد پیدا ہوا۔والد علاقے کے نام گرامی جناب ملک خوائداد خان گجر تھے۔وہ لوگ جو تھے تو ان پڑھ لیکن یونورسٹیاں تھے۔سیدھے سادے بھولے بھالے مگر من کے سچے لوگوں کی لڑیوں کے دانے تھے۔اللہ ان کی قبروں کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے۔ ارشاد بھائی کی زندگی علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتے گزری۔٢٩ دسمبر ٢٠٠٢ کی رات کو انہیں دل کا شدید دورہ پڑا۔میں اسی دن گجرانوالہ سے نلہ پہنچا تھا۔مئی ٢٠٠٢ میں جدہ سے جنرل مشرف کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوا تھا ابھی پائوں زمین پر نہ لگے تھے
گجرانوالہ میں ہی رہائش تھی اس وقت کا سفر ایک لمبا سفر تھا میں نیچے چچا کے گھر ہی تھی کہ ہمارے ایک عزیز نے میرے کزن کا دروازہ بڑی زور زور سے کھٹکھٹایا وہ آواز تھی جیسے اسرافیل صور پھونکا گیا ہو۔کڑاکے کی سردی تھی کورے سے پہاڑیاں سفید ہو رہی تھیں میں دوڑا دوڑا اوپر ڈھیر ی والے گھر پہنچا تو دیکھا کہ بھائی کی سانس اکھڑ رہی ہے۔میں اپنے تئیں کوشش کی کہ ان کے منہ میں ہوا بھروں چھاتی پر ہاتھ مارے مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی۔انہیں دل کے دورے کی شدت نے موت سے ہمکنار کیا۔۔رخصتی کی نیت تھی بہانے ہزار ، ان میں سے ایک میرے اس بھائی نے ہارٹ اٹیک کا چنا اور روتا بلکتا ایک ہجوم پیچھے چھوڑ دیا عمر اور واصف مجھے یہ ننھے بچے چیختے چلاتے دکھائی دیے۔قیامت کی راتوں کا ذکر بہت سنا مگر دیکھی اس رات۔ ارشاد چیئرمین اس علاقے کی شناخت تھے۔اس علاقے کی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ہمارے اس گھرانے نے تعمیر و ترقی کی بنیاد میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔اس یونین کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسل میں ہماری گجر برادری کی اکثریت نہیں لیکن ایوب خان کے بلدیاتی انتحابات سے لے کر اب تک عاقائی نمائندگی کا اعزاز ہمیں ہی حاصل ہے۔یہ سب اسی کا کرم ہے اور ہمارے علاقے کی سب برادریوں کی اچھائی۔
ارشاد بھائی کی مجھ سے جڑی یادیں بہت ہیں میں چھوٹا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں گجرانوالہ سے نلہ جایا کرتے تھے۔بھائی ان دنوں کراچی میں مزدوری کیا کرتے تھے اس زمانے کی بات ہے جب کراچی پاکستان کا دبئی تھا اور جناب الطاف حسین کا وجود کریہہ عدم دستیاب تھا۔کورنگی کے ایریا کراچی نمبر ٣١ کی کسی مل میں کام کیا کرتے تھے۔چھوٹا سا تھا کہنے لگے کیا چاہئے میں نے کہا کہ ایک سائیکل چھوٹی سی۔میر ا مطالبہ ایک ننھے اور معصوم بچے کا خواب تھا۔کہنے لگے نلہ میں تو پہاڑی علاقہ ہے یہاں کیسے چلے گی ہم بھی انہی کے بھائی تھے کہا راستے میں گجرانوالہ آتا ہے وہاں اتر کر دے دیجئے گا۔ میرے لئے تو شائد بھائی ارشاد سائیکل لینے گئے ہوئے ہیں۔لگتا ہے انہوں نے تو آنا نہیں پتہ نہیں کب ہم سائیکل مانگنے ان کے پا س جاتے ہیں؟
ہمارے اس گائوں کا ضلعی سطح پر نام تو ہمارے ایک اور بھائی مختیار گجر نے پہنچایا مگر ڈسٹرکٹ کونسل میں پہنچانے میں ہمار ے بڑوں اور اس بھائی کا بڑا ہاتھ ہے۔گجرانوالہ میں ہماری ایک فیکٹری تھی چوہان میٹل ورکس کے نام سے بھائی ارشاد وہاں بھی کام کرتے رہے۔بے جی بتایا کرتی تھیں کی جمعے والے دن چھٹی ہوتی تو میں ان کے ناخنوں کی میل خود نکالتی۔بھائی جان ارشاد نے ان کی اس خدمت کا حق ادا کیا اور جب انہیں موت کا مرض لاحق ہوا تو بے جی کو پمز میں وہ لائے۔ارشاد بھائی یونین کونسل برکوٹ کے چیئرمین رہے جبری بنگلہ سے سڑک نکلی تو اس میں اپنے والد صاحب اور دیگر بزرگوں کے ساتھ مل کر دن رات ایک کیا۔اس سڑک کے نکالنے میں چودھری خوائداد جو میرے پھوپھا تھے میرے تایا جان چودھری عبدالغفار گجر والد صاحب برخودار خان چچا فضل الہی اور جبری کے مرحوم ملک عبدالرحمن عباسی کا بڑا ہاتھ تھا۔مجھے لکھنے دیں کہ نلہ کی تعمیر و ترقی کا آغاز اس دن ہوا جس دن جبری بنگلہ سے نکلنے والی سڑک پر پہلی کدال چلائی گئی۔
بعد میں چودھری مختیار گجر نے بی ایچ یو کی بنیاد رکھوا کر راستے کھول دئے۔میرے بھتیجے فیصل ذوالفقار علی نے اس دیے میں اور تیل ڈالا اور اب عابد مختیایار گجر اور حال ہی میں ممبر ضلع کونسل بننے والے ماجد مختیار گجر نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ماجد نے تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے فنڈ لے کر نلہ درکوٹ کوہالہ میں تعمیر و ترقی کے کام کرائے یہ کام اس وقت ہوئے جب عابد ٤٠ ووٹوں سے جبری کے محترم و مکرم جناب تاج عباسی صاحب سے ہارا تھا۔اس بار ١٣٠٠ ووٹوں کی لیڈ سے ماجد جیتا۔ہم اپنے ہارنے والوں کا جس قدر احترام کرتے ہیں وہ بھی ہمارے خانوادے کا اعزاز ہے مجھے راجہ صادق کو ہارا ہوا لکھنے پر بھی ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔شائد یہی حسن ہے کہ اپر خانپور میں ہم اچھی رسم و روایات کے امیں ہیں۔
بھائی ارشاد کا جانا اس خانوادے کے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں رات کو ہی میں اور سعیدہ حساب لگا رہے تھے کہ بھائی جب اس دنیا سے گئے تو ان کی کیا عمر تھی،وہ لگ بھگ ٥٥ سال کے تھے۔بڑی خوبصورت وجاہت کے حامل تھے سانولی رنگت دراز قدگجروں کی طرح بالوں کو مہندی لگایا کرتے تھے۔ خوراک بھی پہاڑی گجروں جیسی ترامی میں لسی والے ساگ میں مکئی کی روٹی خوب کٹ کے کھاتے دودھ مکھن مل جاتا تو اس سے حسن سلوک کی ایلی راویات قائم کرتے۔گوجری ان کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑتی وہ گوجری جو بقول شخصے اردو کی ماں ہے ۔اس ماں بولی کا راج آج بھی ہمارے گھروں میں ہے ہمارے انجینئرز ڈاکٹرز اور ایم بی اے بچے بچیاں اپنی اس ماں بولی سے جڑے ہوئے ہیں۔علاقے کی سیاست میں ہمارے بزرگ راجہ سکندر زمان کے گروپ کے ساتھ رہے ہیں ۔البتہ بیدار شاہ کے رکن صوبائی اسمبلی بنوانے میں چودھری ارشاد کا ہاتھ رہا ہے سردار مشتاق گجر مختیار گجر بیدار شاہ قاضی آصف پیپلز پارٹی کے امیدوار رہے جس میں مختیار گجر ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوئے وہ واحد موقع تھا خاندان بکھرا۔اس لئے کے لوگوں کے مزاج پی پی پی والے نہ تھے۔اللہ نے اس خاندان کو ٢٠١٥ میں اکٹھا کیا تو بھاری اکثریت سے اسمبلی میں گئے۔
اس دوران ہرو کے پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ نکلا۔اس علاقے کے مقدر سوئے رہے لیکن اب انگڑائی لے رہے ہیں اس ہرو پل سے خانپور تک کتنے لوگ بے رحم پانیوں کی نظر ہو گئے ماجد نے بتایا کہ ایک ڈولی لفٹ ببھوتری سے بوکن تک منظور کروائی ہے۔یہ وہ بوکن گائوں ہے جہاں سے ہمارے بڑے نلہ آئے ۔ہم گجر لوگ بیہکوں کی تلاش میں پہاڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔نلہ بھی ایسے ہی آباد ہوا۔لوگ تو اب بھی بارش کے دنوں میں اپنوں کی لاشیں ادھر ادھر دفن کر دیتے ہیں۔آئی آئی پی ٹی آئی اس علاقے میں کیا لاتی ہے وہ ماجد کے کام سے جڑا ہوا ہے جو ضلع ہری پور کے پہاڑ سے واحد بیٹ کے نشان کے ساتھ جیتا ہے۔
آج تیرہ سال گزر گئے ہیں آج پھر ان کی یاد آئی ہے۔چودھری ارشاد کا وارث ملک ربنواز گجر ویلیج کونسل کا چیئرمین ہے عمر اور واصف دبئی میں حصول رزق میں مصروف ہیں بھائی ملک فیاض گجر اور ریاض چودھری ہماری برادری میں ایک بانڈ ہیں جو سب کو جوڑے ہوئے ہیں اللہ ان کی عمر دراز کرے۔چیئرمین صاحب کی بیٹی بھی لیڈی کونسلر ہیں۔گائوں کیا علاقے کی خدمت میں یہ خانوادہ مصروف ہے۔ممبر قومی اسمبلی زیب جعفر بھی اسی گھرانے کے فرزند چودھری فیصل کے ہاں موجود ہیں صاحبزادی اسحق طفر ماجد کی اہلیہ ہیں گویا میرا گھرانہ پارلیمنٹ بنا ہوا ہے جس میں مختلف پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں۔اللہ تعالی سب لوگوں کو خوش رکھے وہ جو ہم سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ جن کے ساتھ ہم جڑے ہوئے ہیں اللہ ان پر بھی رحمتیں نچھاور کرے آمین۔
جی بھائی جان ان تیرہ سالوں میں شائد تیرہ گھڑیاں بھی نہ ہوں جس میں آپ ہمیں یاد نہ آئے ہوں ۔اس موقع پر میں برادران چودھری ریاض ملک فیاض چودھری مجید بہنوں بھائی کی بیوہ ان کے بچوں پوتوں پوتیوں سے سوائے افسوس کے اظہار کے کیا کر سکتا ہوں۔نلہ کی ان پگڈنڈیوں پر سب کچھ ہے مگر وہ نہیں۔یہ ہرو پل جبری بنگلہ سوڑی گلی جیسب کی ناڑی پارا نلہ ڈھیر گلی ہوتر چڑیالہ سب کچھ ہے وہ نہیں ہم بھی نہیں ہوں گے بس رہے گا نام ایک اللہ کا جو قائم بھی ہے دائم بھی جو ایک نہیںستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔آئو اسی کی طرف لوٹیں اور اپنے اس مرحوم و مغفور کے لئے دعا کریں اور ان سب کے لئے جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
جانے والا جا چکا ہے اور میری آنکھ میں اک لرزتا ٹمٹماتا سا ستارہ رہ گیا
سرگی کے اس تارے کی لئو گائوں کی مسجد کے باہر اپنے بزرگوں کے ساتھ ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری