تحریر: عفت
وہ ادھر ادھر متلاشی نظروں سے دیکھ رہی تھی پھر اس کی نظر بورڈ پر پڑی اس نے برقعے کا نقاب نیچے گرایا اور دکان پر لگے بورڈ کی طرف بڑھ گئی۔ بورڈ پر جلی حروف میں لکھا تھا ساحری بنگالی بابا، جادو ٹونا اور کالے علم کی کاٹ کے ماہر، نحبوب آپ کے قدموں میں ،گھریلو ناچاقی، ساس بہو کے جھگڑے اور دیگر تمام معاملات کے لیے رجوع کریں ۔رقیہ نے دکان میں قدم رکھا سبز موٹے پرانے سے پردے کے پیچھے ایک کائونٹر بنا ہوا تھا جہاں ایک بڑا سا ڈبہ پڑا تھا ،ایک طرف پانی کا کولر اور اس پہ میلا سا گلاس پڑا تھا ۔کائونٹ کے پیچھے کالا بھجنگ مو ٹا سا آدمی سر پہ ٹوپی جمائے بیٹھا تھا ،وہ ہر آنے والے کو ٹوکن دیتا اور ٥٠٠ کا ہدیہ وصول کر لے ڈبے میں ڈال دیتا۔
رقیہ نے بھی دوپٹے کے پلو سے مڑا تڑا پانچ سو کا نوٹ نکالا اور ڈبے میں ڈال دیا ۔موٹے آدمی نے اس کو پانچ نمبر کا ٹوکن دیا اور آگے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ آگے بڑھ گئی ۔راہداری نما لمبی سی دکان کے پارٹیشن بنائے گئے تھے رقیہ پردہ ہٹا کر اگلے حصے میں داخل ہوئی جہاں پلاسٹک کی کرسیاں لائن میں لگ ہوئی تھیں۔ وہاں دو عورتیں اور ایک مرد بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔عورتوں نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہو گئیں۔
مرد کی توجہ اپنے موبائل پہ تھی ۔رقیہ ایک کرسی پہ بیٹھ گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی اتنے میں کیبن کا دروازہ کھلا اور ایک مرد باہر آیا ، پھر دونوں عورتیں اندر چلی گئیں وہ پندرہ منت کے بعد واپس آئیں پھر مرد کی باری تھی ۔رقیہ بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی گھر سے تو وہ جلدی ہی نکلی تھی مگر پھر بھی اسے دیر ہوگئی تھی ۔مرد باہرآیا تو وہ جلدی سے کھڑی ہو گئی اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا وہ خود کو سنبھالتے ہوئے اندر آئی نیم تاریک ماحول پر پرسراریت چھائی ہوئی تھی ۔کچھ لمحے بعد اس کی آنکھیں تاریکی میں دیکھنے کے قابل ہوئیں۔
سامنے ایک تخت پہ ایک مکروہ صورت بنگالی براجمان تھا سفید داڑھی میں اس کا کالا رنگ بہت عجیب لگ رہا تھا ۔اس کی گلے میں موٹے دانوں کی ایک مالا تھی ہاتھوں میں رنگ برنگی انگوٹھیاں تھیں سامنے ایک انگیٹھی نما برتن میں آگ دہک رہی تھی جس میں بنگالی بابا وقفے وقفے سے کچھ ڈال رہا تھا ،فضا میں لوبان اور جلنے کی سڑاند پھیلی ہوئی تھی ۔دیوار پہ ایک سوکھا ہوا الو اور کئی حنوط شدہ پرندے لٹکے ہوئے تھے ۔ایک طرف مرتبان میں مرغیوں کے سر ، پنجے اور مختلف آلائیشیں رکھی تھیں ۔رقیہ جھجکتی ہوئی بابا کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
بابا نے اپنی سرخ نظریں اوپر اٹھائیں اور گونجتی آواز میں بولا با مراد ہو کر جائیگی اس آستانے سے فکر نہ کر بتا کیا چاہتی ہے؟رقیہ نے بابا کے پائوں چھوئے اور دو زانو ہو کر بیٹھ گئی بابا جی میں بہت دکھیاری ہوں ساس اور نند نے میرا جینا دو بھر کر رکھا ہے شوہر ماں کا اتنا فرماں بردار ہے کہ ساری کمائی اس کے ہاتھ پہ رکھ دیتا بس بابا جی کوئی ایسا عمل بتائو کہ وہ میرا ہو کر رہے میری دیورانی بھی آپ کے پاس آئی تھی اور اب وہ الگ گھر میں اپنے میاں کے ساتھ رہتی روپے پیسے کی بھی ریل پیل ہے ۔میری بھی ان ساس نندوں سے جان چھڑوائیں۔
رقیہ کے لہجے میں حسد اور نفرت انتہائی درجے کو چھو رہی تھیں ۔بابا جی نے آنکھیں بند کر لیں اور مراقبے میں چلے گئے کچھ دیر منہ میں بدبدانے کے بعد ایک دم آنکھیں کھول دیں اور غیض غضب میں بولے تیری ساس نے تجھ پہ جادو کروایا ہے مگر ہم اس کا توڑ کریں گئے کام مشکل ہے ،جو ہم کہیں اس پہ عمل کرنا۔جی بابا جی آپ جو کہو گے وہی ہوگا ۔بابا جی نے ایک پتلہ نکالا اور اس میں سوئیاں چبھوئیں اور رقیہ کا حوالے کیا یہ رات بارہ بجے کسی تازہ قبر کے سرہانے دبا دینا اور تین راتوں کو اسی قبر کے سرہانے ایک وظیفہ پڑھنا ہے یہ کر پھر اگلا عمل بتائینگے اب جا یہ کہہ کے وہ دوبارہ اپنے وظیفے میں گم ہوگئے۔
رقیہ اپنے بستر پہ پہلو بدل رہی تھی ،اسلم کی اس پورے ہفتے نائٹ ڈیوٹی تھی وہ ایک مل میں ٹیکنیشن تھا ۔ساتھ والے کمرے میں اس کی ساس عشاء کی نماز کے بعد وظیفے میں مشغول تھی پھر ووسو جاتی اور تہجد کے وقت اٹھتی ۔ساس کے ساتھ اس کی سترہ سالہ نند میٹھی اور بے فکر نیند سو رہی تھی ۔ساس نے وظیفہ ختم کیا آیت الکرسی کا حصار بنایا اور لیٹ گئی چند لمحوں بعد اس کے خراٹے گونج رہے تھے ۔رقیہ دھیمے سے اٹھی الماری سے پتلہ نکالا کالی چادر اوڑھی اور خاموشی سے باہر نکل گئی،ہر طرف ہو کا عالم طاری تھا چند گلیاں عبور کر کے ایک بڑا میدان تھا جس کے ساتھ ہی قبرستان تھا۔
وہ قبرستان میں ڈاخل ہوئی ۔اس کی نظریں تازہ قبر کی تلاش میں تھیں ایک چھوٹی سی قبر جس کی مٹی بھی نم تھی اور اس پر تازہ گلاب کی پتیاں موجود تھیں ۔وہ دل کڑا کر کے قبر کے سرہانے پہہنچ گئی۔انسان کی نفرت بھی عجیب چیز ہے اسے اندھا بنا دیتی ہے کہ وہ غلط اور ٹھیک میں تمیز کے قابل نہیں رہتا ۔رقیہ کو بھی نفرت نے بہادر بنا دیا مگر اس کی عقل پہ پردہ ڈال دیا ۔وہ چھوٹے سے کدال سے قبر کا سرہانہ کھود رہی تھی پھر اس نے اس میں پتلا دبایا اور واپس پلٹی مگر اس کے قدم گویا زمین نے جکڑ لئے۔
سامنے قبرستان کا گورکن اسے خشمگیں نظروں سے گھور رہا تھا ۔رقیہ بری طرح گھبرا گئی گویا وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی ۔اس نے جلدی سے چادر سے منہ ڈھکا اور تقریبا دوڑتی ہوئی وہاں سے بھاگ آئی ۔گھر پہنچنے تک وہ بری طرح ہانپ چکی تھی ۔کمرے میں آتے ہوئے اس کی نظر ساس کے بستر پہ پڑی وہ وہاں موجود نہیں تھیں ۔اب تو اس کے حواس گم ہونے لگے ۔وہ خاموشی سے اپنے بستر پہ آکر لیٹ گئی ۔صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس کی نند سکول جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جبکہ اس کی ساس چولھے پر توا رکھے روٹی بنا رھی تھی ۔اس نے چور نظروں سے ساس کی طرف دیکھا مگر وہ اپنے کام میں مصروف تھی۔اسلم کی بائیک باہر آ کر رکی سلام کے بعد وہ ہاتھ منہ دھو کے ماں کے پاس پیڑھی پہ ناشتہ کرنے آ بیٹھا ۔رقیہ نے سالن اور پانی لا کر رکھا اس دوران اس کی نند سکول جا چکی تھی ۔اسلم بھی سو گیا ۔ساس چھوٹے چھوٹے کام نبٹاتی رہی پھر کسی میلاد میں جانے کا کہہ کر باہر چلی گئی۔رقیہ کو ہول اٹھ رہے تھے کہ وہ رات کا عمل کیسے کرے گئی۔
اسی کشمکش میں شام ہو گئی اسلم کے جانے اور ساس کے سونے تک وہ خاموش رہی ساس نے ایک دو مرتبہ پوچھا تو ا س نے ہوں ہاں کہہ کر ٹال دیا ۔ رات بھیگ چکی تھی ،وہ دبے پائوں باہر نکل آئی ، قبر تک پہنچی اور بنگالی بابا کا عمل کرنے کے لیے سرہانے بیٹھ گئی بتائے گئے منتر کے الفاظ دہراتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔یکا یک اسے کسی کی آہٹ سنائی دی وہ ڈر کر پیچھے مڑی ۔گورکن غالبا اس کی تاک میں تھا اس نے رقیہ کا بازو پکڑ کر گھسیٹا ۔رقیہ نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر مرد کی گرفت کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔
وہ اسے گھسیٹتا ہوا ایک طرف بنے مکان میں لے گیا ۔اب رقیہ کو احساس ہوا کہ وہ کس مصیبت میں گرفتار ہوگئی ہے ۔گورکن باہر سے تالا لگا کر غائب ہو گیا ۔رقیہ اب اپنے کیے پہ پچھتا رہی تھی ۔ایک گھنٹے بعد قدموں کی چاپ سنائی دی اور تالے میں چابی گھومنے کی آواز آئی ۔رقیہ ڈر کے مارے سمٹ کے بیٹھ گئی کمرے میں ایک چارپائی کے علاوہ کچھ نہ تھا گورکن کے ساتھ بابا بنگالی کو دیکھ کر رقیہ دنگ رہ گئی ۔پھر اس کے ذہن میں آیا کہ بابا اسے بچا سکتا ۔وہ بابا کے قدموں سے لپٹ گئی اور فریاد کرنے لگی کہ اس کے بتائے عمل کرنے آئی تھی بابا کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ تھی۔
فجر کی اذان کی آواز سنتے ہی حاجی کرامت نے مسجد کی راہ لی گلی کا موڑ مڑتے کچرا کنڈی کے پاس ایک مڑا تڑا وجود دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے ۔اس کی نبض ٹٹولی اور زندگی کی ہلکی سی رمق پا کر فورا اپنے گھر بیٹے کو فون کیا دونوں باپ بیٹا اسے اپنے گھر لے آئے ۔حاجی صاحب نے بیگم کو صورتحال سے آگاہ کیا ۔ رقیہ کو ہوش آ چکا تھا مگر وہ شاک کی حالت میں تھی اور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی ۔حاجی صاحب اور ان کے گھر والوں کے ہمدردانہ رویے نے اسے سب بتانے پر مجبور کر دیا ۔ساری داستان سن کر حاجی صاحب اس کے بتائے پتے پہ اس کے گھر جا پہنچے مگر وہاں ماتم کا عالم تھا اسلم کام کرتے ہوئے الیکٹرک شاک لگنے سے جاں بحق ہو گیا تھا ۔اور اس کی میت صحن میں پڑی تھی ۔ساس اور سعدیہ کا رو رو کے برا حال تھا۔
حاجی صحب نے واپس آکر رقیہ کو جب یہ خبر سنائی تو وہ پچھاڑیں کھانے لگی بہت مشکل سے اسے گھر لے جایا گیا ۔اس کا دماغ الٹ گیا اور وہ خود کو مورد الزام دیتی رہی ۔جس کو حاصل کرنے کے لیے اس نے خدا کو فراموش کر کے بابا کا سہارا لیا وہ ہی اس سے جدا ہوگیا ۔رقیہ نیم پاگل ہو گئی ہے سارا دن گلیوں میں کبھی اسلم کو تلاش کرتی ہے تو کبھی چھری لے کے بابا کی تلاش میں نکل جاتی ہے مگر بابا نے شاید کسی اور شہر ڈیرا بسا لیا جہاں کئی ضعیف العتقاد عورتیں اس کا شکار ہو رہی ہونگی۔ رقیہ کے دو ماہ قبل وفات ہوگئی۔ اس کی ساس نے اپنے آنسو پونچھے اور اپنے گھر کی جانب تھکے قدموں سے روانہ ہوگئی۔
تحریر: عفت