جب بھی صادق و امین کا لفظ سنائی دیتا ہے تو ذہن میں ہمارا سیاسی نظام آتا ہے کیوں کہ اس لفظ کی بازگشت حکومتی ایوانوں میں ہی زیادہ سنائی دیتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ صادق و امین اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو وہ یا تو سیاسی برادری ہوتی ہے یا پھر سرکاری برادری۔ رہی عوامی برادری، تو جناب یہ کس کھیت کی مولی ہے اور کیا اوقات ہے اس کی جو اس برادری میں کوئی مائی کا لال صادق و امین ہو۔ یہ تو وہ برادری ہے جو صادق و امین ہونے کی مہر ایک پرچی پر لگا کر صادق و امین امیدوار کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے اور اپنی ہی دی ہوئی پرچی کی سند کی ہر پانچ سال بعد دوبارہ تجدید بھی کردیتی ہے۔
ویسے صادق اور امین شخص کو پرکھا کیسے جائے؟ مطلب ایسی کون سی کسوٹی ہے جس سے ہمیں معلوم ہو کہ فلاں شخص صادق و امین ہے؟ دنیا بھر میں ایک ہی پیمانہ ہے جانچنے کا کہ جو شخص سچا اور ایماندار ہو، حق حلال کی کماتا ہو، باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہو، ملکی قوانین پر عمل کرتا ہو، جس کا ماضی بے داغ ہو، محب وطن ہو، اپنے یوٹیلیٹی بلز باقاعدگی سے ادا کرتا ہو وغیرہ۔
الحمدللہ! ہمارا ملک ایک اسلامی مملکت ہے اس لیے ان دنیاوی قوانین کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین پر عملدرآمد کرنا بھی ضروری ہے۔ تمام دنیا میں ایسے لوگوں کو بہت سی سہولیات میسر ہوتی ہیں وہ معزز کہلائے جاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسے لوگ قابل عزت و احترام ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی ان میں کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی جاتی۔ چاہے وہ عوامی برادری سے ہوں، سیاسی سے یا حکومتی برادری سے، سب سے یکساں سلوک ہوتا ہے؛ سب کو یکساں سہولت حاصل ہوتی ہے۔ افسوس کہ یکساں سلوک کرنے اور تفریق نہ کرنے کا حکم تو ہم مسلمانوں کو دیا گیا تھا مگر حکم کی تعمیل مغرب کر رہا ہے۔
آخر یہ ناانصافی عوام کے ساتھ ہی کیوں جو نہ صرف ملکی قوانین کا احترام کرتے ہیں بلکہ باقاعدگی سے ٹیکس اور تمام یوٹیلیٹی بلز بھی جمع کراتے ہیں؟ پھر اسی حق حلال کمائی سے پیسے بچا بچا کر حج بھی کرتے ہیں، بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں اور سرکاری شفا خانوں سے علاج معالجہ بھی کرواتے ہیں۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، لائسنس، پینشن وغیرہ کے حصول کےلیے دھوپ، گرمی، سردی میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہی عوام ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز دینے کےلیے بھی بڑی بڑی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں، کسی حادثے کے رونما ہوجانے کے بعد یہی عوام سب سے پہلے اپنے ہم وطنوں کی مدد کےلیے دوڑتے ہیں؛ یہاں تک کہ اپنی رگوں سے خون نکال کر ان کی رگوں میں منتقل کرتے ہیں۔ وی آئی پی موومنٹ کے نام پر دوران سفر عوام کو شاہراہوں پر گھنٹوں کھڑا کردیا جاتا ہے، یہی عوام ان وی آئی پی موومنٹس کی وجہ سے بند ہونے والی سڑکوں پر ایمبولنس کو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان نام نہاد صادقوں اور امینوں کی موومنٹ کی وجہ سے ملک بھر میں روزانہ جو تضحیک اور ذلت اس حقیقی امین و صادق عوام کی ہوتی نظر آتی ہے، اس کی کوئی مثال کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔ ملک بھر میں ایسی ہزاروں شاہراہیں موجود ہیں جہاں سے یہ سیاسی اور سرکاری صادق و امین جب شاہانہ انداز میں اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو شاہراہوں کو اس طرح بند کردیا جاتا ہے جیسے کرفیو لگا دیا گیا ہو۔ اگر ٹریفک کی روانی کے دوران کسی کی گاڑی ان کی گاڑی کے سامنے آجائے تو اس طرح سائرن بجائے جاتے ہیں جیسے آپ نے اس شاہراہ پر چل کر بہت بڑا جرم کیا ہے۔
اگر آپ نے باوجود ان کے سائرن کے یہ سوچ کر جگہ نہیں دی کہ آپ بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں اور آپ کو پورا حق ہے کہ آپ قانون کے مطابق اس شاہراہ کا استعمال کریں، تو بس پھر آپ کو ایسی ذلت و تضحیک کا سامنا ہوگا کہ آپ کو احساس ہونے لگے گا کہ آپ کا اس وطن پر کوئی حق نہیں، چاہے آپ کتنے ہی قانون پر عمل کرتے ہوں؛ کیوں کہ آپ کےلیے قانون کچھ اور ہے اور ان کےلیے کچھ اور۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ملک میں لاتعداد ایسی شاہراہیں بھی ہیں جو یوں تو بہت کشادہ ہیں لیکن ان پر مختلف جگہوں پر ٹریفک جام نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چار پانچ ٹریکس پر مشتمل وہ سڑک کئی جگہ پر عوام کےلیے صرف دو تین ٹریکس میں تبدیل ہوجاتی ہے، باقی ایک دو ٹریکس کو بلاک لگا کر اس دفتر کی حدود میں شامل کرلیا جاتا ہے جو وہاں پر موجود ہوتا ہے۔ اگر کوئی سوال کرے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ حفاظتی انتظامات ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ پاکستان کے وزیراعظم کی امریکہ کے ايئرپورٹ پر ايک مڈل کلاس آدمی کی طرح تلاش لی گئی لیکن ایسا ہمارے ملک میں ممکن نہیں کیوں کہ یہاں تفریق کا نظام ہے۔ یہ لوگ نہ کبھی سڑک پر لگے لال سگنل پر رکتے نظر آتے ہیں نہ نادرا، پاسپورٹ آفس، بینکوں، انکم ٹیکس کے دفاتر کے باہر لگی قطاروں میں دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی کوئی قانون ان پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہوتا ہے تو صرف ان عوام پر جنہوں نے اپنے ووٹ سے انہیں چن کر ایوانوں میں بھیجا اور اپنی جیب سے ٹیکس ادا کرکے انہیں تنخواہ دیتے ہیں تاکہ وہ ہمارے مسائل حل کریں۔ افسوس عوام کے مسائل حل کرنا تو کجا، انہوں نے عوام کےلیے مزید مسائل پیدا کردیئے۔