اسلام آباد(ویب ڈیسک) پولیس افسر طاہر خان داور کی اچھی کارکردگی پر انہیں قائد اعظم میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔پاکستان میں دفترخارجہ نے ایک بیان میں پولیس افسر طاہر خان داور کا نام لیے بغیر بتایا ہے کہ افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ایک لاش ملی ہے کہیں وہ طاہر خان داورکی تو نہیں جس کے ساتھ اسلام آباد سے اغوا ہونے والے پولیس افسر طاہر داوڑ کا سروس کارڈ بھی ملا ہے۔
نامورصحافی رفعت اللہ اپنی بی بی سی میں شائع ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق مذکورہ لاش کو دور بابا سے مومند درہ منتقل کیا جا چکا ہے اور وہاں سے جلال آباد میں پاکستانی قونصل جنرل کے حوالے کی جائے گی، جس کے بعد تورخم کے ذریعے پشاور لائی جائے گی۔دریں اثناء خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طاہر داوڑ کی لاش افغانستان کے صوبے ننگرہار سے ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد طورخم پر حکومتی ٹیمیں لاش وصول کرنے کے لیے وہاں موجود ہیں اور جونہی انہیں میت ملتی ہے اسے تدفین کے لیے فوراً پشاور روانہ کر دیا جائے گا۔ادھر بدھ کی شام سے ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور مختلف واٹس ایپ گروپس میں تصویریں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں جن کے بارے میں کےا گیا کہ یہ طاہر خان داوڑ کی ہیں لیکن سرکاری ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔پولیس افسر کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولیس افسر کے بھائیوں اور اہل خانہ کو بھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس
سے طاہر دواڑ کے ’قتل‘ اور افغانستان میں ان لاش ملنے کی اطلاع ملی۔ تاہم ان کے اہل خانہ ابتداء میں ان اطلاعات پر یقین نہیں کر رہے تھے۔پولیس افسر کے قریبی دوست اور داوڑ قومی جرگہ کے رہنما سمیع اللہ دواڑ کا کہنا ہے کہ منگل کی شام وہ پولیس افسر کے بھائیوں سے ملنے ان کے گھر گئے جہاں اس وقت پولیس افسر کے رشتہ دار اور بچے بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ جب ان کے بھائیوں سے سوشل میڈیا پر چلنے والے تصویروں اور ان کے ’قتل‘ سے متعلق استفسار کیا گیا تو بھائیوں اور بچوں نے کچھ کہنے کی بجائے اچانک زارو قطار رونا شروع کر دیا جس سے وہاں ماحول انتہائی افسردہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ انہیں بھی بعد میں محسوس ہوا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ اچھی خبر کی آس لگائے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ طاہر دواڑ کے اہل خانہ گذشتہ 20 دنوں سے جس تکلیف اور قریب سے گزرا ہے ان کا اندازہ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ان کے مطابق وزیرستان کے ایک جرگہ کے پولیس سربراہ صلاح الدین محسود سے ان کی ملاقات ہوئی تھی جس میں ان کی طرف سے بار بار یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ
طاہر داوڑ بہت جلد بخیریت گھر پہنچ جائیں گے۔ادھر خود کو خراسان ولایہ کہنے والی ایک غیر معروف تنظیم نے طاہر داوڑ کی ’قتل‘ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔پشاور کے علاقے حیات آباد میں واقع مقتول طاہر داوڑ کی رہائش گاہ پر منگل کی شام سے لوگوں کا تانتا باندھا ہوا ہے اور دور دارز کے علاقوں سے لوگ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ ہلاک ہو گئے ہیں تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔حیات آباد کے فیز 6 کے علاقے میں طاہر داوڑ کی رہائش گاہ کے قریب ایک خالی پلاٹ واقع ہے جہاں گذشتہ شام سے ایک بڑا سا ٹینٹ لگا ہوا ہے اور جہاں درجنوں کی تعداد میں کرسیاں لگی ہوئی ہے۔مقتول کی رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جگہ جگہ پولیس اہلکار نظر آتے ہیں جبکہ تعزیت والی جگہ پر بھی کئی پولیس اہلکار دکھائی دیے۔پولیس افسر کے ایک بھائی سے جب دریافت کیا گیا کہ پولیس کی طرف سے ان کو اس بابت کچھ بتایا گیا کہ ان کے بھائی لاپتہ اسلام آباد سے ہوئے مگر ان کی ’لاش‘ کے افغانستان سے ملنے کی اطلاعات ہیں تو اس پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ انہیں کچھ نہیں معلوم اور اس کے ساتھ ہی وہ وہاں سے اٹھ کر دوسری طرف چلے گئے۔وہاں تعزیت کےلیے
آنے والوں میں بیشتر لوگ وزیرستان کے تھے جن میں قومی جرگوں کے مشران اور دیگر قبائلی ملکان شامل ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں محمد طاہر داوڑ کی بیٹیوں اور بھائیوں نے بھی شرکت کی مقتول کی رہائش گاہ پر موجود شمالی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے کہا کہ مقتول محمد طاہر داوڑ لاپتہ اسلام آباد جیسے محفوظ ترین شہر سے ہوئے لیکن ان کی ’لاش افغانستان سے ملی جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔‘خیال رہے کہ پشاور پولیس کے ایس پی محمد طاہر خان دواڑ تقریباً 20 دن قبل اسلام آباد سے پر اسرار طورپر لاپتہ ہوگئے تھے۔ لاپتہ ہونے کے دو دن بعد ان کے خاندان کو محمد طاہر ہی کے موبائل فون سے انگریزی زبان میں ایک ٹیکسٹ پیغام آیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پنجاب کے شہر جہلم کے کسی علاقے میں ہیں اور چند دن کے بعد گھر واپس آ جائیں گے۔لاپتہ افسر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ پیغام طاہر داوڑ کے فون سے ضرور بھیجا گیا تھا، لیکن پیغام کا متن اور الفاظ کسی اور نے لکھے تھے۔ بقول ان کے، طاہر داوڑ زیادہ تر اردو زبان میں پیغام بھیجتے ہیں۔اسلام آباد پولیس کی طرف سے ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی۔