تحریر: صبا عیشل، فیصل آباد
انسانی فطرت ہے کہ جذبوں کے بغیر جیا نہیں جا سکتا۔ خوشی ‘تاسف’شرمندگی ‘خوف’خیرت بوریت’بیزاری اور جیسے لاتعداد ایسے جذبات ہیں جن کے بغیر جینا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تمام احساسات ایسے ہیں کسی شخص واقعے اور حالات کے تغیر کے مطابق انسانی جسم میں پیدا ہوتے ہیں اور حالات اور واقعات کے مطابق ذہن و دل پر مختصر یا زیادہ وقت کے لئے چھائے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو ان تمام جذبوں سے زیادہ پر اثر اور دیرپا ہے’ وہ جذبہ ہے اداسی کا۔ اداسی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “اداسی بے سبب نہیں ہوتی” ایک ریسرچ کے مطابق اداسی انسانی جذبات میں سب سے دیرپا ٹہرنے والا جذبہ ہے جو باقی جذبات و احساسات کی نسبت 240گنا زیادہ ٹہرتا ہے۔جس کا کم سے کم دورانیہ ١20 گھنٹے ہوسکتا ہے اور اکثر تو اداسی کی کیفیت ایک سے دو ہفتہ تک قائم رہتی ہے۔ شدید اداسی کی کیفیت اس سے بھی کہیں زیادہ وقت لے سکتی ہے اور بسا اوقات مسلسل اداس رہنے والے لوگ ڈپریشن کے مرض تک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب کے اسکے مقابلے میں نفرت کا دورانیہ 60 گھنٹے اور خوشی کے مختلف جذبات کا دورانیہ صرف 35 گھنٹے ٹہرتا ہے۔
اداسی کا سبب ناامیدی ‘کسی قریبی شخص یا قیمتی چیز کا کھو جانا ‘ کوئی تکلیف دہ یاد یا واقعہ ہوسکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اداسی کا سبب اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہماری ذات کے سب سے قریب ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر ہم خدا کی اور والدین کی ذات کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ھیں۔ لیکن زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے اچانک ہماری ذات سے وابستہ قریبی لوگ ہمارا اعتبار اس بری طرح سے توڑدیں’ہماری ذات کی نفی کردیں یا ایسا ہی کوئی قریبی اہم ترین شخص ہم سے جدا ہوجائے تو ایسی صورتحال میں شدید ترین اداسی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔مضبوط لوگ تو ایسی کیفیت سے جلد ہی باہر آجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو قصہ پارینہ سمجھ کر آگے کی طرف قدم بڑھالیتے ہیں مگر حساس لوگ ایسے صدمات کا بہت گہرا اثر لیتے ہیں جس کا اثر انکے روز مرہ کے معمولات اور آس پاس کے لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔ مسلسل خاموشی اور اور اداسی کا خول چڑھا لینے کی وجہ سے ایسے لوگ اندر ہی اندر ٹوٹتے رہتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔
اس مرض یا حالت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ ایسی حالت میں متعلقہ شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھودیتا ہے اور اسکا نتیجہ خودکشی بھی ہوسکتا ہے۔ بلکہ خودکشی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو خودکشی کی 100 فیصد وجہ ڈپریشن ہی ہے۔ علامات ڈپریشن شدید ترین اداسی یعنی اداسی کی کیفیت میں دلبرداشتہ ہونا ‘ تفریح میں کمی’ مایوسی’بے چینی ۔’ چڑچڑاپن’ بات بے بات غصہ آنا ‘فیصلہ کرنے میں مشکل ہونا’ بھوک کا کم یا زیادہ لگنا ‘نیند میں کمی ‘وزن کا تیزی سے بڑھنا یا کم ہونا’ سر میں مسلسل درد ہونا’ اعصابی تھکا محسوس کرنا شامل ہے۔ اگر ان میں سے چار سے پانچ علامات کسی شخص میں موجود ہوں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔
دنیا بھر میں ڈپریشن کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ڈپریشن کی ادوایات کے حصول کیلئے سالانہ 100 ارب ڈالر خرچ کیئے جارہے ہیں جو کہ ادوایات کیلئے خرچ کئے جانے والے کل تخمینے کا 22 فیصد ہے۔ اس کیفیت کو کیسے کم یا دور کیا جاسکتا ہے اس کے لئے ہم بہت سے ایسے طریقے اپنا سکتے ہیں جو ایسی صورتحال میں بہت کارآمد اور موثر ثابت ہوتے ہیں۔بعض اوقات اس طرح کی اداسی کا دورہ کسی شخص کی شخصیت کو نکھارنے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ بلجیئم کی یونیورسٹی آف لیووین سے منسلک پروفیسر فلپ اور پروفیسر سسکیا لیور نے اس موضوع پر کافی تحقیق کی اور نتیجہ یہ نکالا دراصل اداسی کا ایک طویل دورانیہ انسان کو اس واقعہ پر سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور آئندہ آنے والے وقت سے کیسے نمٹنا ہے اس کے لئے تیار کرتا ہے۔
اداسی یا ڈپریشن کی حالت میں اپنے قریبی دوستوں سے اظہار کرنا سب سے موثر عمل ہے۔ دوستوں یا قریبی رشتوں سے پریشانی کا اظہار نہ کرنا مزید تکلیف کا سبب ہوسکتا ہے۔ ایسی حالت میں میں انسان توڑ پھوڑ کے عمل سے گذر رہا ہوتا ہے اور اندرونی طور پر شدید تکلیف کا شکار ہوتا ہے۔ ضبط کے کڑے مراحل سے گذرتے ہوئے اگر انسان اپنی تکلیف کسی پر آشکار نہ کرے تو نتیجہ مایوسی اور ڈپریشن ہوسکتا ہے جو اکثرانسان میں مرنے کی خواہش پیدا کردیتی ہے اور انسان خوکشی پر محبور ہوجاتا ہے۔
بعض اوقات ایسی حالت میں ہم خود کو مصروف رکھنا چاہتے ہیں اور ذہنی تنا کے ساتھ ساتھ خود کو اعصابی تھکا کا بھی شکار ہو بیٹھتے ہیں۔ ایسی حالت میں خود کو مصروف رکھنا ایک اچھی اور مثبت کوشش ہے مگر کوشش کرنی چاہیئے کہ مصروفیت ایسی ہو جو جسمانی طور پر تھکاوٹ کا شکار نہ کرے۔ جیسے کتاب پڑھنا’ ہلکی پھلکی ورزش کرنا ‘دوستوں کی سنگت میں بیٹھنا وغیرہ ماہرین کے نزدیک اس طرح کی صورتحال میں اپنی تکلیف کا اظہار اگر لکھ کر کیا جائے تو اس سے بھی ذہنی تنا کافی حد تک کم ہوسکتا ہے. ڈپریشن کی حالت میں اکثر لوگ چھوڑدیتے ہیں یا کم کردیتے ہیں ایسا کرنا بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔
اگرچہ صدمے اور پریشانی کی حالت میں کھانے پینے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ ایسی صورتحال میں خود کو کھانے کیلئے آمادہ کریں۔ اگر آپ کو اپنے اداس ہونے کہ وجہ معلوم ہو تو تو مسئلہ کے حل پر غور کریں۔ اداسی کی حالت میں کمرہ بند کرکے نہ بیٹھیں اور نہ ہی اندھیرے میں بیٹھیں بلکہ لوگوں سے ملیں جلیں اور بات کریں۔ اداسی کو خود پر طاری نہ کریں بلکہ مسلسل مسکرانے کی کوشش کریں۔ ایک ریسرچ کے مطابق آپ اگر بہت خوش ہیں لیکن صرف کچھ منٹوں کیلئے رونے کی اداکاری کریں تو رونے کی کیفیت آپ پر حاوی ہوسکتی ہے بلکہ آپ کی آنکھوں میں آنسو تک آسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ بہت اداس اور مسلسل مسکرانے کی کوشش کررہے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں آپ کا موڈ پہلے سے بہت بہتر ہوسکتا ہے۔اگر مسلسل کوشش کے باوجود بھی آپ خود کو نارمل نہیں کر پارہے ہیں تو پھر کسی مستند ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔
تحریر: صبا عیشل، فیصل آباد
Writer Club (Group)
Email: urdu.article@gmail.com
Mobile No