اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پاکستان پیپلز پارٹی نے 2011 ء میں ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر فنڈزکو بین الصوبائی تعاون ڈویژن کے ماتحت کیا جو وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔فیصلے کے بعد اختلاف کرنے کے لیے 15 روز کا وقت ہوتا ہے لیکن صوبائی وزیر کو ڈیڑھ سال بعد خیال آیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جو ڈبلیو ڈبلیو ایف اور ای او بی آئی کا حال کیا تھا اس پر مناظرہ کیا جائے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز ذلفی بخاری نے منگل کو پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر سندھ سعید غنی کے ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی کے غیر آئینی قبضے سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہم نے نہیں کیا، اب ڈیڑھ سال بعد سعید غنی کو ہوش آیا اور اب وہ اپنی جماعت کے فیصلے کو ہی چیلنج کررہے ہیں، اگر آ پ کو یقین ہے کہ اسے منتقل کر کے بہت زبردست محکمہ بنایا جاسکتا ہے تو آپ کی 5 سال حکومت تھی اس وقت اسے نچلی سطح تک کیوں نہیں لے کر گئے ۔ معاون خصوصی نے کہا کہ اس کے مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی اس وقت یہ مدعا کیوں نہیں اٹھایا بلکہ 2011 میں جب آئی پی سی کے ماتحت کیا اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جنہوں نے اس فیصلے کے خلاف 2012 میں سپریم کورٹ میں کیس کیا. انہوں نے کہا کہ اگر سعید غنی کو اتنی تشویش ہے تو وہ مسلم لیگ (ن) کے کیس میں شامل ہوجائیں جو انہوں نے پیپلز پارٹی کی جانب سے صوبوں کو منتقل کرنے کے بجائے آئی پی سی کے ماتحت کرنے پر کیا تھا۔ زلفی بخاری نے کہا کہ 5 سال ان کی حکومت تھی 5 سال مسلم لیگ (ن) کی رہی لیکن کبھی منقتلی ہر بات نہیں ہوئی اور یہ کہتے ہیں کہ اجلاس کے نکات تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سینیٹ میں جاچکا ہے اسلیے اگر پیپلز پارٹی کو اس میں تبدیلی کرنی ہے تو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلائیں۔ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ یہ بات کرتے ہیں کہ سندھ بورڈ آف ریونیو (ایس بی آر) نے بہت زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے، ہی بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ اماؤنٹ سے فرق نہیں پڑتا اصل بات یہ ہے کہ کتنی صنعتوں سے محصول اکٹھا کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کے صنعتکاروں نے ان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہوا ہے جنہیں حکومت سندھ پر بھروسہ نہیں ہے۔زلفی بخاری نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی نے ٹیکس کلیکشن میں بھی لوٹ مار کرنے کی کوشش کی ہے اور 2015 میں سندھ کمپنیز ایکٹ ہے اور کہا کہ اسے گزشتہ تاریخوں میں کر کے 2011 سے کلیکشن شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کمپنیاں 2011 سے 2014 تک ورکرز ویلفیئر فنڈ میں اپنا حصہ ادا کرچکی ہوں وہ دوبارہ ادائیگی کریں اسلیے انہوں نے عدالت سے رجوع کیا کیوں کہ انہوں نے 2 مرتبہ لوٹنے کی کوشش کی۔ معاون خصوصی نے کہ یہ سندھ حکومت کی ریونیو کلیکشن کی حقیقت ہے اور اگر آپ نے اتنا زبردست ریونیو اکٹھا کیا ہے تو آپ نے 5 سالوں میں کتنے بہبود کے منصوبے بنا لیے، جب وفاق میں تھا تو صرف 7 ارب روپے استعمال کرتے ہوئے 7 منصوبے کیے لیکن آپ نے 23 ارب روپے اکٹھے کر کے ورکرز ویلفیئر کے صرف 2 منصوبے کیے اور وہ بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے جبکہ انہیں 7 سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعید غنی صاحب اگر آپ سے وہ 2 منصوبے بھی نہیں ہورہے تو میں سندھ آنے کو تیار ہوں 3 ماہ میں اسے مکمل کردوں گا۔زلفی بخاری نے کہا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈز کی منتقلی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فیصلہ ہے اور ہم اسے کرنے کے لیے میکانزم تلاش کررہے ہیں، اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے ہم سے اتفاق کرلیا تھا، اجلاس میں کچھ کہتے ہیں میڈیا میں کچھ اور کہتے ہیں۔ معاون خصوصی نے کہا سی سی آئی کے اجلاس کے بعد اختلاف کرنے کے لیے 15 روز کا وقت ہوتا ہے لیکن انہیں ڈیڑھ سال بعد خیال آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام اجلاسوں میں بیٹھا ہوں اور اگر وزرا نے اختلاف بھی کیا ہو تو ان کے وزرائے اعلیٰ نے تحریری طور پر اتفاق کیا ہوا ہے، جبکہ 2 مرکزی اسٹیک ہولڈز یعنی آجر اور ملازمین نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ یہ صوبوں کو منتقل نہیں ہونے چاہیے کیوں کہ انہوں نے سندھ کے حالات دیکھے ہوئے تھے کہ جہاں رشوت دے کر کلیکشن میں حصہ ڈالنے سے بچا جاسکتا ہے۔ زلفی بخاری نے مزید کہا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ سے انہوں نے اپنے دور حکومت میں خورشید شاہ کی مہربانی سے روات میں ایک جائیداد 71 لاکھ روپے میں خریدی تھی جس کی آج کی ویلیو 40 لاکھ روپے ہے اور یہ کیس نیب میں موجود ہے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کے وقت ڈبلیو ڈبلیو ایف سے ایک ارب روپے لے کر سندھ بھیجے گئے اس پیسے کا کیا کیا آج تک حساب نہیں دے سکے۔انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ روپے کی ایک اشتہاری مہم دی گئی جس میں نیب میں پلی بارگین ہوئی ہے، بغیر ٹینڈر کے ریجنل دفاتر کھولے جس میں 150بھرتیاں کی ہوئی ہیں، وہ دفاتر آج تک بند ہیں اور وہاں کوئی کام بھی نہیں ہوتا۔ زلفی بخاری نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت کے دوران ای او بی آئی میں 350 غیر قانونی بھرتیاں کیں، جب ہمیں ای او بی آئی ملی ہم پینشن کو 5 ہزار سے بڑھا کر 8 ہزار تک لے کر گئے۔ پی پی پی کے دور حکومت میں ای او بی آئی کی کلیکشن 10.4 ارب مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں 15 ارب روپے رہی جبکہ ہم 23 ارب روپے تک لے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ ٹی وی پر کسی بھی دن تمام آجروں اور ملازمین کی فیڈریشن کے سربراہان کو بلائیں اور پوچھیں کہ پیپلز پارٹی نے جو ڈبلیو ڈبلیو ایف اور ای او بی آئی کا حال کیا تھا وہ چاہتے ہیں کہ اسے صوبوں کو منتقل کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو جب پریس کانفرنس کرنی ہو مجھے سامنے بٹھائیں اور حقائق اور اعداد و شمار پر بات کریں۔