counter easy hit

سعید قیس

دل کو سیراب کیا اور نہ پیاسا رکھا
ہم نے دریا سے عجب درد کا رشتہ رکھا

شوق تو اس کو بھی تھا بِھیڑ میں کھو جانے گا
جانے کیا سوچ کے اس نے مجھے تنہا رکھا

تیری سانسوں کی مہک آئے، جہاں سے آئے
ہم نے دیوار میں ہر سمت دریچہ رکھا

جس کی گہرائی میں ہم ڈوب سکیں مر بھی سکیں
ہم نے آنکھوں میں وہ دریا تو ہمیشہ رکھا

روشنی مجھ کو بلانے مرے گھر تک آئی
اس نے دیوار پہ مٹی کا دیا کیا رکھا

مجھے اک دن کسی سائے کے حوالے سے بھی دیکھ
سوکھ جاؤں گا یونہی دھوپ میں رکھا، رکھا

قیس ہی رکھ دیا جب ہم نے تخلص اپنا
کنج آغوش میں اک دامن صحرا رکھا

کوئی پچیس برس قبل بحرین کی ایک گرم شام میں مرحوم نجیب افضل کے گھر پر یہ غزل میں نے پہلی بار سعید قیس کی زبانی اور پھر بیگم افضل نجیب یعنی مہرو بھابی کی خوب صورت آواز میں کمپوزڈ شکل میں سنی تو بہت دیر تک اس سوال میں الجھا رہا کہ وطن سے دور کیا کیا صاحب کمال لوگ ہیں جو ایسی بے مثال شاعری کرنے کے باوجود گوشۂ گمنامی میں پڑے رہتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ ادبی دنیا میں یہ صورت حال تو اب کم و بیش ہر جگہ ہے کہ ادب اور لکھاری اب معاشرے کی ترجیحات میں اس قدر نیچے چلے گئے ہیں کہ اکا دکا کے سوا عام لوگ ان کے کام تو کیا ناموں تک سے واقف نہیں۔

کہنے کو کتابیں بہت چھپ رہی ہیں اور میڈیا کی وساطت سے بھی کچھ نام کانوں میں پڑتے رہتے ہیں مگر عمومی طور پر اہل قلم اس عزت اور پذیرائی سے محروم ہی رہتے ہیں جو ان کا حق اور کسی مہذب معاشرے کا فرض اور افتخار ہوتے ہیں۔ ایسے میں سعید قیس جیسے کسی گوشہ نشین ’کم گو‘ اور درویش صفت انسان سے عام قاری کی دوری سمجھ میں تو آتی ہے مگر دل کو مزید اداس کردیتی ہے۔

بحرین کی ادبی تنظیم الثقافہ (جس کے اس وقت نمائندہ ممبران امتیاز پرویز، افضل نجیب، نور پٹھان، سید وہاج الدین، شفاقت صاحب، سید صلاح الدین اور بیگم و ڈاکٹر سلیم تھے) کی دعوت پر احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد، قتیل شفائی، عطاالحق قاسمی اور راقم الحروف پر مشتمل شعراء کا ایک گروپ نوّے کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں بحرین پہنچا تو ہمارے لیے سب سے خوشگوار حیرت سعید قیس سے ملاقات تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی تلاش معاش کے سلسلے میں یہاں آگئے تھے۔

ذات کے کشمیری اور پکے لاہوریے تھے لیکن ایک ایرانی النسل خاتون سے شادی کے بعد ان کی شخصیت میں پنجابی اردو اور فارسی تینوں زبانیں اپنے تہذیبی پس منظر سمیت کچھ یوں گھل مل گئیں کہ ان کی شاعری میں ایک نیا جہان آباد ہوگیا۔ اگرچہ اس وقت ان کی عمر ساٹھ پینسٹھ کے لگ بھگ تھی۔ اس وقت بھی انھیں بحرین کے بابائے شاعری کا درجہ حاصل تھا۔ ان کے کلام سننے اور پڑھنے کے بعد ہم سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ اس وقت بحرین کے ہی نہیں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے سب سے بڑے اور نمائندہ شاعر تھے۔

میں نے انھیں ہمیشہ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس اور ایک مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دیکھا۔ ان کی صحت اس وقت بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی جو مسلسل خراب ہوتی چلی گئی اور آخری چند برسوں میں تو وہ تقریباً صاحب فراموش رہے لیکن بیماری اور ضعف کے باوجود ان کی مہمان نوازی اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں آئی اور یہی حال ان کی شاعری کا رہا۔ مجھے ان کے دوسرے مجموعے ’’دیوار و در‘‘ کے فلیپ اور تیسرے مجموعے ’’محبت روشنی ہے‘‘ کا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوا کہ بڑھاپا صرف ان کے جسم پر طاری ہوا ہے۔ ان کے قلب و ذہن اور شاعری کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔

تمام تر گوشہ نشینی اور ایک مخصوص نوع کی جھنجھلاہٹ اور مردم بیزاری کے باوجود ان کی نظر معاصر ادب پر بہت گہری تھی۔ ان کا آہنگ اور مزاج غزل کی کلاسیکی روایت سے قریب تر تھا مگر وہ جدید لہجوں اور نئے شعری مضامین کو بھی حسب ضرورت بہت خوب صورتی اور ہنر مندی سے استعمال کرنے پر قادر تھے۔

تُو نے جس مشت میں رکھا مجھے سائے کے بغیر
خوب میں نے بھی وہاں خاک اڑائی، مولا

ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے لیکن
ہماری آرزو کتنی بڑی ہے

سب کی ہتھیلیوں پہ دیے تھے شب فراق
سب جل رہے تھے اور منور کوئی نہ تھا

بچے مری گلی کے بہت ہی شریر ہیں
پھر آج تیرا نام درختوں پہ لکھ گئے

چُپ کی عادت کب چھوڑوگے
باتیں کرنے کا کیا لو گے!

سب کا سونا تول چکے ہو
اپنی مٹی کب تولو گے!

دل پتھر کا گھر ہے جس میں
شیشے کا سامان بہت ہے

بری عادت ہے لیکن پڑگئی ہے
خود اپنے گھر میں رہ کرگھر نہ ہونا

کرن کرن سے اُجالے کی بھیک مانگتے ہیں
وہ چاند تھا تو کوئی بندوبست کردیتا

نام ہوا بدنام محلے والوں کا
گھر کو ہم نے خود ہی آگ لگائی تھی

درج کرنے کے لائق اور بھی بے شمار شعر ہیں مگر اب ان میں اضافہ کرنے والے نے چپ کی وہ چادر اوڑھ لی ہے جس کے بعد نئی باتوں کی جگہ صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ سعید قیس مرحوم کی بہت سی عادات مرحوم مجید امجد سے ملتی جُلتی تھیں اور ان کا تعلق بھی اس منتخب گروہ سے تھا جو ساری عمر آدمی کے اندر موجود اس انسان سے سرگوشیاں کرتے گزار دیتے ہیں جو ہر ایک کو پکڑائی نہیں دیتا۔ ان کے جانے سے اب وہ گھر صرف ایک اجنبی مکان ہوکر رہ گیا ہے۔ جس میں ان کے ساتھ گزرنے والا وقت مجھ سمیت ان کے ہر دوست کے لیے ایک معیاری وقت کی حیثیت رکھتا تھا۔ کسی نقاد (غالباً حسن عسکری) نے حالی کو بھلا مانس غزل گو کہا تھا۔ میرے خیال میں ہمارے دور میں سعید قیس ہی اس القاب کے موزوں ترین حق دار تھے۔

یہی تو وصف ہے ہم نامراد لوگوں کا
زمیں پہ رہنا نظر آسمان میں رکھنا

وہ جس کے ہونے سے ملتا ہے منزلوں کا سراغ
اک ایسا شخص بھی تم کارروان میں رکھنا

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website