counter easy hit

پارٹی کو اختلافات کی نذر ہونے سے بچانے کے لیے پی ٹی آئی کے فاؤنڈرز گروپ کے سعید اللہ خان نیازی میدان میں آگئے ۔۔

Saeedullah Khan Nazi, the PTI's founder's group, came to the field to save the party from getting rid of differences.

لاہور (ویب ڈیسک) دلچسپ امر یہ ہے کہ جو پارٹی انتخاب میں دھاندلی ایک فساد اور عذاب بن کر پارٹی میں انتشار کا باعث بنی، اسکے چیف الیکشن کمشنر ہمارے محترم حامد خان صاحب ہی تھے۔ اس وقت کا ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ پارٹی کی ایک اور دیرینہ اور نامور کالم نگار محمد اسلم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بانی رہنما محترمہ فوزیہ قصوری کو چیف الیکشن کمشنر نے دوہری شہریت ہونے پر شعبہ خواتین کے صدر کے عہدے پر انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی۔ پارٹی کے لوگوں کے مطابق فوزیہ قصوری اپنی شہریت ترک کرنے کیلئے امریکی سفارت خانے کو اگر چہ خط بھی لکھ چکی تھیں لیکن پھر بھی ان کو پارٹی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہ مل سکی حالانکہ بعض دیگر دوہری شہریت رکھنے والے افراد کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی لیکن نشانہ صرف فوزیہ قصوری ہی بنیں۔ پارٹی کے لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حامد خان صاحب کو اب اچانک یہ سب کیوں یاد آگیا ہے۔ کیا یہ وہی جہانگیر ترین نہیں۔ کیا اس وقت جسٹس (ر) وجیہہ کیلئے آپ نے آواز اٹھائی؟ اگر نہیں تو پھر کیوں؟ اور اگر اب اٹھارہے ہیں تو کیوں؟ بعض درون خانہ معلومات رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل اس وقت پارٹی کے اندر جاری رسہ کشی عوام میں آگئی ہے۔ پارٹی کے اندر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کیمپوں کی لڑائی اس وقت عروج پر ہے۔ ان گروہوں کی باہمی چپقلش اور ایک دوسرے کیخلاف فیصلہ کن وار کرنے کا مرحلہ آگیا ہے۔ دونوں طرف صف آرائی ہوچکی ہے اور کھلاڑی اپنی اپنی چال چلنے والے ہیں۔یہ خطرہ اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنیوالے دنوں میں پارٹی کے اندر جاری اس کشمکش کے نتیجے میں حکمران جماعت دو واضح گروہوں میں منقسم نظرآئیگی۔ شاہ محمود قریشی گروپ میں پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی شامل ہیں جبکہ حامد خان بھی انکے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے ہوئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ چوہدری سرور کو پنجاب میں عہدے سے ہٹانے کیلئے سرگرم ہوچکا ہے جسکے پیشگی انتظام کیلئے حامد خان تلوار سونت کر میدان میں نکلے ہیں۔ شاہ محمود قریشی گروپ کا اعتراض ہے کہ تمام حکومتی اور پارٹی امور عملا جہانگیر ترین کے سپرد ہوچکے ہیں۔ یہی وہ وجہ تھی کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ٹی وی انٹرویو میں یہ مشہور زمانہ جملہ معترضہ کہہ دیاتھا کہ ’’اگر پارٹی جہانگیر ترین نے ہی چلانی ہے تو ہم یہاں آلو چھولے بیچنے آئے ہیں؟‘‘ حامد خان کی اس وقت سچ گوئی پر ایک یہ اعتراض بھی اٹھایا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کے اندر عطیات کی گڑبڑ کے ذمہ داران کو جانتے بوجھتے نظرانداز کرتے آئے ہیں، فارن فنڈنگ کیس، پانچ سال سے چل رہا ہے، اٹھارہ جعلی اکائونٹس کی نشاندہی ہوئی، جس سے وہ آگاہ ہیں لیکن انہوں نے چپ سادھے رکھی۔ ان رہنمائوں کا استدلال ہے کہ حامد خان صاحب پارٹی کی پاور پالیٹکس کا حصہ بن کر اب آواز حق بلند کررہے ہیں۔ حکمران جماعت کے اندر اس وقت جو گروہ بندی جاری ہے۔ اس میں ایک گروہ سعید اللہ خان نیازی اور اکبر ایس بابر جیسے بانی پارٹی رہنمائوں کا بھی ہے جسے ’فاؤنڈرز گروپ‘ کی صورت پزیرائی مل رہی ہے۔ جو حقائق رفتہ رفتہ لیکن بتدریج سامنے آرہے ہیں، وہ بھی کوئی اچھا اور نیک شگون نہیں ہیں۔ (یار رہے کہ سعید اللہ خان نیازی عمران خان کے بڑے بھائیوں جیسے کزن اور حفیظ اللہ نیازی و انعام اللہ نیازی کے بڑے بھائی ہیں اور پورے خاندان میں سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان اپنے ان ماضی کے تمام لوگوں کو حکمت وتدبر سے پھر سے جمع کرلیتے۔ پارٹی کے اندر باہمی اختلافات ، پسند وناپسند اور لڑائیاں کوئی نئی یا انہونی نہیں۔ پاکستان میں ہی کیا دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ اجتماعی مقاصد کے حصول کی خاطر قیادت ان تمام اختلافی اور ایک دوسرے کے متحارب دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع رکھتی ہے۔ یہ مشکل لیکن صبرآزما ذمہ داری بہرحال قیادت ہی کے گلے کا جنجال ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی پارٹی میں پھیلتے انتشار کو بروقت روکنا ہوگا ورنہ مزید بھد اڑنے کا سارا فائدہ انکے سیاسی مخالفین اٹھائیں گے اور پہلے سے مسائل کی شکار حکومت کیلئے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ پارٹی کے یوم تاسیس پر کراچی میں جس طرح تقریروں کی جگہ کرسیاں چلی ہیں، وہ بھی پارٹی کی بدنامی کا باعث ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سندھ کے صدر اور آرگنائزر وہ حلیم عادل شیخ ہیں جو اپنی گاڑی پر شیر لگا کر پھرتے تھے۔ وہ (ق) لیگ کا علمبردار رہے۔ اس سے قبل ہم نے دیکھا اور سنا کہ سابق وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین کے خلاف بھی حامد خان نے ایک سنگین الزام عائد کردیا تھا۔ فیصلہ بہرحال عمران خان کو ہی کرنا ہے جن پر وزارت عظمیٰ کی بھاری ذمہ داری ہے لیکن پارٹی کے اندر پھیلتی بے چینی بھی ان کو ہی روکنی ہے۔ صرف ایک وہ ہیں جنہیں اس مسئلے کو بھی حل کرنا ہوگا۔ یہ باہمی رسہ کشی اس وقت پاکستان کیلئے قطعی طورپر نیک فال نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website