تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
یقیناآپ بھی میری اِس بات سے متفق ہوں گے کہ ہرزمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کے اِنسانوں نے پیش آئے حالات اور واقعات کے باعث اپنے جزوقتی فوائد کے خاطر نظریہ ضرورت کے تحت کچھ ایسے قوانین اور ضابطے بنائے جن کا مقصد محض اِنسانوں اور اداروں کی ضرورتوں اور خواہشات کو پوراکرنااور کوئی ایسی راہ نکالنا تھاکہ جس سے معاشرے میں بہتری آئے اور اِس کے ثمرات اِنسانوں تک پہنچیں اوراِنسانوں کے مسائل فوری طورپر حل ہوں پھر تو نظریہ ضرورت کی ایسی عادت بن گئی کہ ہر اِنسان اور ہرادارہ بغیر کچھ کئے بس نظریہ ضرورت کا ہی سہارالینے لگ گیااور اَب یہ حالت ہے کہ اِنسانوں اور اداروں نے اپنے مسائل کا حل اپنے وسائل سے ہاتھ پاو ¿ں ہلاکر نکالنے کے بجائے بس نظریہ ضرورت سے ہی نکالناشروع کردیاہے جس سے معاشرے کے انسانوں اور اداروں میں بگاڑپیداہورہاہے۔
ایسے میں یہاں ہمیں یہ بات بھی ہرگزنہیں بھولنی چاہئے کہ یہ اِنسانوں کا اپنا پیداکردہ نظریہ ہے ، جِس کا دروازہ پچھلے زمانے کے انتہائی شارپ وچالاک اور شاطر ترین اِنسانوں نے اپنے ذاتی ، سیاسی ، مالی اوراخلاقی فوائد کے حصول کے خاطر کھولا، یوں یہ تب سے ابتک کھلاہواہے، آج اِس نظریئے کا جتنافائدہ موجودہ صدی کے اِنسان کو ہواہے، شاید اِسے خود بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ اِس کے لئے بظاہرتو کتنافائدہ مند ثابت ہوتارہاہے ہواہے اور ہوتارہے گا مگر آ ج کے اِنسان کو اِس کا ہرگز اندازہ نہیں ہے کہ کچھ انسانوںکے کھلولے گئے نظریہ ضرورت کے دوزاے نے موجودہ دور کے اِنسان کی محنت اور جدوجہد کرکے ترقی کرنے کے بہت سے دروازے بند کردیئے ہیں ابھی تو دورِرواں کے اِنسان کو اِس بات کا احساس نہیں ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرتاجائے گا یہی نظریہ ضرورت اِس کے لئے بہت سے ذاتی ، سیاسی، معاشی و معاشرتی،مالی اور اخلاقی اور تہذیب و تمدنی لحاظ سے تباہی اور بربادی کا باعث بنتاچلاجائے گا۔
بہرکیف،اِنسان بھی کِتنابے مرورت اور مفاد پرست جاندار ہے، جب تک اِس کا کسی سے کام چلتاہے ،تو وہ اُس کو اپنا استاد اور باپ مانتاہے، مگر جیسے ہی اِس کا کام نکل جاتاہے یا اِس کا اُلو سیدھا ہوجاتاہے تو یہ اپنی آنکھیں پیشانی پر رکھ لیتاہے، حضرتِ اِنسان کی اپنے جیسے اِنسانوں کے ساتھ پیش آئے معاملاتِ زندگی میں اِس کی مطلب پرستی توپہلے ہی مشہورہے مگر اَب ایسا لگتاہے کہ جیسے دورِ حاضر کے اِنسانوں نے اپنی اِس خصلت کا دائرہ جانوروں تک بھی پھیلادیاہے،اگرچہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ حضرتِ انسان اپنی اِس عادت کو ٹھیک کرتااور سُدھارتا یا کم ازکم اِسے یہیں روکے رکھتاجہاں یہ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اِس نے اپنی یہ عادت یقینی طورپر جانوروں تک بھی پہنچا دی ہے۔
کون کہتاہے کہ گدھا یا گدھے عقل مند نہیں ہوتے ہیں…؟؟اِتنے عقل مندہوتے ہیں اِس کا مجھے اندازہ نہیںتھا آپ حیران و پریشان نہ ہوں ،لیجئے …!! اور سُنیئے کہ ہمارے یہاں گدھوں نے ایک ایسافیصلہ کیا ہے کہ اِنہوں نے اپنے انوکھے فیصلے سے گدھوں کو بچالیا ہے، پچھلے دِنوں مجھے گدھوں کے عقل مندہونے کاانداز ہ اِس وقت ہواجب میںنے یہ خبر پڑھی کہ ” بلدیہ عظمیٰ کراچی کا مالی بحران سنگین ،اُونٹ اور گھوڑے بیچنے کا فیصلہ،سفاری پارک میں موجود 12اُونٹوں اور 15گھوڑوں کو فوری طورفروخت کیا جائے گا “جبکہ سفاری پارک کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے گدھوں کی فروخت کا گدھوں نے بعد میں فیصلہ کیا ہے۔
تب میں اِس خبر کو پڑھنے کے بعد اپنے جیسے بہت سے اُن اِنسانوں کی اِس سوچ وفکر پر غورکرنے لگاکہ جواَب تک یعنی کہ اِس خبر سے پہلے گدھے یا گدھوں کو کم عقل گردانتے آئے ہیں پھرمیں اِسی دوران تدبر کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیاکہ آج اگر واقعی گدھا اِتناہی کم عقل یا بدعقل جانور ہوتاجیساکہ ہم پاکستانیوں سمیت جنوبی ایشیا کے بعض ممالک کے باشندوں کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کئی رنگ و نسل ، زبان وملت اور مذہب و تہذیب کے اِنسان گدھے کواور خداجانے کیا کیا کچھ سمجھتے ہیں…؟؟ مگر کچھ بھی ہے پھربھی میں یہ کہتاہوں کہ دنیا کے زیادہ ترلوگ اِسے ایک بیووقوف اور بد عقل جانور ہی کی حیثیت سے پہچانتے ہیں تومجھے اپنے جیسے اِنسانوں کی عقل پر شک ہونے لگا اور میں یہ سوچنے لگاکہ جیسا کہ ہم گدھے کو سمجھتے ہیں اگر واقعی گدھا ایساہوتا…؟؟؟توآج دنیا کو دولتی مارکر اِسے فتح کرنے اور ساری دنیا پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے کلیئے پر کاربند امریکا کی موجودہ حکمران جماعت کا صدراوباما جس کا انتخابی نشان ” گدھا“ تھاوہ کبھی بھی اپناانتخابی نشان ” گدھا “ منتخب نہیںکرتا… ؟؟
بہرحال ،اَب کیا یہ ہماری اپنی عقل اور فہم وفراست ہے کہ ہم گدھے یا گدھوں کو کم عقل یا بدعقل جانورجانتے ہیں اور کہتے ہیں…؟؟ اور ہم اپنی ساری زندگی گدھے کو ایک بیوقوف اور بدعقل جانورگردان کر اِسے دھتکارتے اور پھٹکارتے رہتے ہیں اور اپنی اپنی زبانوں میں ایسی ایسی مثالیں پیداکرتے ہیں کہ جس سے گدھے کی کم عقلی اور بیوقوفی کے عنصرنمایاں ہوتے ہیں۔ آج مجھے جس خبر کو پڑھ کر گدھے یا گدھوں کی کم عقلی یا اِن کے بیوقوف ہونے سے متعلق اپنے خیالات کو تبدیل کرنے کا موقع ملااور میں مان گیاکہ گدھے یا گدھوں کو بدعقل یا بیوقوف کہنے والے ختم سبسے برے بد عقل اور بیوقوف لوگ ہوتے ہیں۔
خبر کی تفصیل یوں ہے کہ ”بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اپنے شدت اختیار کرتے مالی بحران کو کم کرنے کے خاطر پہلے مرحلے میں سفاری پارک میں موجود12 اونٹوں اور15 گھوڑوںکوفوری طور پر بولیاں لگاکربیچنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پارک میں موجود گدھوں کو بعد میں اِسی طرح فروخت کے لئے پیش کئے جائیں گے “ جس پر ادارے کا خیال یہ ہے کہ اِس طرح ادارے کے سنگین ہوتے مالی بحران میں بڑی حد تک بہتری کے امکانات پیداہوں گے “آپ نے پڑھاکہ ادارے کے گدھوں نے کس طرح پہلے مرحلے میں اُونٹوں اور گھوڑوں کو فروخت کرکے اپنے جیسے گدھوں کو فروخت ہونے سے بچالیاہے۔
جبکہ اِس صورتِ حال میں میرے نزدیک ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سفاری پارک کی انتظامیہ سرجوڑ کربیٹھتی اوراپنے سنگین ہوتے مالی بحران کو کم کرنے کے لئے ہوامیں سفاری پارک کے اُونٹوں ، گھوڑوں اور ترتیب وار گدھوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بجائے سب سے پہلے اپنے اردگرد کا جائزہ لیتی اورادارے میں موجود دوٹانگوں والے اِنسان نمااِن کاہل گدھوں کو جو ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں حاصل کررہے ہیں اور جوکام کے ناکاج کے دشمن اناج کے ہیں اور یہ اپنی ذات سے ادارے کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اُلٹاادارے پر ایک بوجھ بنے پھررہے ہیں جن کی وجہ سے ادارہ سنگین مالی بحران کا شکارہورہاہے سب سے پہلے اِنہیں نکال باہر کرنے کا فیصلہ کرتی تو بہت اچھاہوتا…یہ کیا کہ سفاری پارک کی انتظامیہ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حکامِ بالانے اپنی کم عقلی سے یہ فیصلہ کیاکہ ادارے کے سنگین ہوتے مالی بحران کو مرحلے وار سفاری پارک کے 12اُونٹوں اور15گھوڑوں اور گدھوں کو فروخت کے کم کیا جائے گا۔
یہاں راقم الحرف بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سفاری پارک کی ضرورت سے کہیں زیادہ عقل مند اور نظریہ ضرورت کاسہارالے کر سفاری پارک کے اُونٹوں ، گھوڑوں اور گدھوں کی بولیاں لگاکر فروخت کرنے والی انتظامیہ سے یہ عرض کرناچاہے گا کہ براہ ِ کرم سفاری پارک کے اُن اُونٹوں ، گھوڑوں اور گدھوں کو ہرگزہرگز فروخت نہ کیاجائے جن کی موجودگی سفاری پارک کو سفاری پارک بنانے اور کہلانے کی وجہ ہے اور جن کی موجودگی سفاری پارک کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے اور جن کی حاضری سوفیصد سفاری پارک میں سیروتفریح کرنے آنے والوں کی دلچسپی کا باعث ہے اِنہیں اپنے جزوقتی فائدے کے لئے فروخت کرنے کے بجائے اِن جانوروں اور اِن جیسے دیگر جانوروں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے اور سفاری پار ک کو مزید خوبصورت اور حقیقی ماحول سے ہمکنار کیاجائے اور تفریح کرنے آنے والوں کے لئے مزید دلچسپی کا سامان مہیا کیاجائے تاکہ لوگوں زیادہ سے زیادہ سیروتفریح کے لئے آئیں اور سفار ی پارک کی آمدنی میں اضافہ ہو ایسانہ کیا جائے کہ سفاری پارک کے جانوروںکو فروخت کرکے انتظامیہ اپنی ضرورتیں پوری کرتی پھرے آج اگر سفاری پارک کی انتظامیہ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حکامِ بالایہ سمجھتے ہیں کہ وہ سفاری پارک کے اُونٹوں ، گھوڑوں اور پھر گدھوں کو بیچ کر مالی بحران سے نکل جائیں گے تومیںیہ سمجھتاہوں کہ یہ اِن کی بڑی بھول ہے ہیں
قبل اِس کے کہ سفاری پارک کی انتظامیہ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حکامِ بالااپنا مالی بحران دور کرنے کے لئے سفاری پارک کے اُونٹوں ، گھوڑوں اور گدھوں کو فروخت کریں تو اِنہیں یہ چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مالی بحران کو کم کرنے کے لئے اپنے ادارے میں موجود اُن دوٹانگوں والے اِنسان نما اُن کاہل اور کام چورگدھوں کوجو ہر ماہ ہزاروں اور سالانہ لاکھوں روپے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں وصول کرکے سفاری پارک اور ادارے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ایسے گدھوں کو نکال باہر پھینکیں تو یقینی طور پر سفاری پارک اور بلدیہ عظمیٰ کراچی سنگین ہوتے مالی بحران سے نکل سکتی ہے ورنہ تو ادارے کی انتظامیہ اُونٹوں ، گھوڑوں اور گدھوں کے بعد ہاتھیوں ، شیروں ، بندورں اور سفاری پارک کے دیگر جانوروں کو بھی ایک ایک کرکے بولیاں لگاکر فروخت کرتی رہے گی تو پھربھی ادارے کا مالی بحران کبھی ختم نہیں ہوگاجب تک کہ ادارہ اپنی آہستینوںمیں بوجھ بنے کاہل اور نااہل ملازمین کو باہر نہیںکردیتااُس وقت تک ادارے کا مالی بحران کبھی بھی ختم تو کیا کم بھی نہیںہوسکتاہے۔
بہرحال،یہ خبر پڑھنے کے بعدمجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہواکہ درحقیقت ایسا نہیںہے، جیساکہ اَب تک میں گدھوں کوبدعقل یا کم عقل اور بیوقوف سمجھتاآیاہوں مجھے یقین ہے کہ آج کے بعد آپ بھی مجھ سے ضرو راِتفاق کریں گے کہ ” آج گدھاسب سے زیادہ عقل مند جاندار ہے، اور آج یہ دنیا کے ہر کونے میں باکثرت پایاجاتاہے یعنی یہ کہ آج کے زمانے کے ہر معاشرے کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی گدھاکسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود ہے، کچھ زیادہ کا م کرکے گدھے کہلاتے ہیںاور کچھ ، کچھ نہ کرکے گدھے یا گدھوں کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں یہاں میں یہ بھی بتاتاچلوںکہ میرے دیس پاکستان کے بہت سے اداروں سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے بہت سے اداروں میںبھی سب سے زیادہ مزے بھی ایسے ہی گدھے لوٹتے ہیں جو کچھ نہ کرکے اپنے بوس اور اپنے ساتھیوں سے گدھے جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں اورخود کو گدھایا گدھے کہلاکر عیش کرتے ہیں۔
الغرض یہ کہ جس طرح گدھے ہر تہذیب کے ہر معاشرے میں کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیںہمارے مُلکِ پاکستان کی طرح دنیا کے بہت سے ممالک کے اعلیٰ و ادنا اداروں میں بھی بہت سی اقسام کے بہت سے گدھے موجودہ ہوتے ہیں ادارون میں جن کی صرف موجود گی کا احساس ہوتاہے مگر یہ کسی کام کے نہیں ہوتے ہیں اور بسااوقات اِن کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں جیساکہ اِس خبرمیں ظاہرہواہے کہ گدھوںنے گدھوں کو چھوڑکراُونٹوں اورگھوڑوں کو پہلے بولیاں لگاکر فروخت کرنے کا فیصلہ کیاہے، یوں گدھوںنے اپنے جیسے گدھوں کو بچاکر اُونٹوں اور گھوڑوں کو فروخت کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سفاری پارک کے سنگین ہوتے مالی بحران میں بہتری لانے سے متعلق یہ انوکھا فیصلہ کیا ہے اِس پر میں گدھوں کی عقل کو داد کئے بغیر رہ نہیںسکاہوں اور اَب اِس نتیجے پر پہنچاہوں کہ کون کہتاہے کہ گدھایا گدھے کم عقل یا بدعقل جانور ہیں، ارے یہ کیاخبر میں ظاہر نہیں ہورہاہے کہ گدھوں نے گدھوں کو بچاکر اُونٹوں اور گھوڑوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرکے کھلم کھلا طور پر دنیاکو یہ بتادیاہے کہ خبر دار اَب اگر کسی نے عقل کے حوالے سے کسی گدھے یا گدھوںکو کم عقل یا بدعقل کہا۔
تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com