لاہور (ویب ڈیسک) ریسرچ موجود ہے کہ ہمارے ملک میں تیس فیصد ایسے شادی شدہ لوگ موجود ہیں جو مانع حمل طریقے اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن ان تک رسائی نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے ہر سال پچیس لاکھ شادی شدہ جوڑے غیر قانونی اسقاط حمل کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نامور صحافی عدنان عادل اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔خاندانی منصوبہ بندی عام سرکاری ہسپتالوں جیسے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال‘ ضلعی ہیڈ کوراٹر ہسپتال‘ دیہی مراکز صحت وغیرہ کا حصہ نہیں۔ اسکے لیے الگ مراکز بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ان مراکز سے لاعلم ہوتے ہیں۔ اگر ان مراکز کو سرکاری ہسپتالوں کے اندر بنایا جائے تو لوگوں کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کی مشاورت اور اس کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا آسان ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ علاج معالجہ کیلیے پرائیویٹ ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی کلینکس پر جاتے ہیں۔ اگر فیملی پلاننگ کے پروگرام کو ان ڈاکٹروں سے منسلک کردیا جائے تو بڑی تعداد میں لوگ ان طریقوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ شہروں میں تو زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کی تعداد کم کرچکے ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ دیہات اور ان علاقوں کا ہے جہاں قبائلی معاشرہ ہے جیسے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان۔ قبائلی معاشرت میں بڑے خاندان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حکومت کو ان جگہوں پر خصوصی پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔ دیہات میں اگر شادی شدہ جوڑوں کو مانع حمل طریقوں کی تعلیم دی جائے اور ان سہولتوں تک رسائی آسان بنادی جائے تو مثبت نتائج آ سکتے ہیں۔ ایسے شادی شدہ جوڑے جو پچاس برس کی عمر تک اپنی فیملی کو دو سے تین بچوں تک محدود کرلیں حکومت انہیں مالی انعام دے تاکہ خاندانی منصوبہ بندی کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ بہت سے طریقے ہیں جن سے ہمارے ملک میں بھی فیملی پلاننگ کا پروگرام کامیاب بنایا جاسکتا ہے لیکن اصل بات حکمرانوں کے ارادہ کی ہے۔ جب تک وہ تہیّہ نہیں کریں گے کوئی بھی پروگرام کاغذوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔