لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے ہاں بھی گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا پر عمران خان کے حامیوں یا ان کے مخالف ’’لفافہ‘‘ صحافیوں کا ذکر ہوئے چلاجارہا ہے۔عمران خان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ بالآخر پاکستان کو ان کی صورت میں ایک ایسا سیاست دان مل گیا ہے جو ذاتی طورپر بہت ایمان دار ہے۔ نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کرپشن کا دشمن ہے۔ 22برس کی طویل جدوجہد کے بعد ’’باریاں‘‘ لینے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچا ہے۔ اس پر اعتبار کیا جائے۔ اس کا ساتھ دیا جائے۔ عمران خان کے مخالفین کے ذہنوں پرحاوی بیانیہ اس سے قطعاََ مختلف ہے۔وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سے عمران خان ان کی نظر میں یوٹرن پہ یوٹرن لئے چلے جارہے ہیں۔ اقتدار ملتے ہی انہوں نے بہت اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ ملکی معیشت سنبھلنے تک وہ ’’بھیک مانگنے‘‘ کسی غیر ملک کا دورہ نہیں کریں گے۔اقتدار سنبھالنے سے قبل IMFسے قرضہ لینے کے بجائے انہوں نے خودکشی کو ترجیح دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں بعد وہ سعودی عرب ایک نہیں دوبار جانے کو مجبور ہوے۔ 5روز چین میں بھی گزارے۔ دو مرتبہ UAEبھی جانا پڑا اور حال ہی میں دو روز ملائیشیاء میں صرف کرکے وطن لوٹے ہیں۔ اسد عمر اور ان کی وزارتIMFسے اپنے وزیر اعظم کے ’’کامیاب‘‘ دوروں کے باوجود 6سے 8ارب ڈالر کا پیکیج لینے کو بے تاب ہے۔IMFیہ رقم دینے کو تیار ہے مگر اس کے عوض وہ حکومت پاکستان سے جن اقدامات کا تقاضہ کررہی ہے ان کا اطلاق ووٹوں کی محتاج کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہیں۔لہذا لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہے۔ ریگولر اور سوشل میڈیا میں عمران خان کے حامیوں اور مخالفین کے مابین جاری کھوکھلی مگر جارحانہ لفظی جنگ نے یقینا ہمارے لوگوں کی اکثریت کو بھی بیزار کردیا ہوگا۔ ہمارے ہاں مناسب تحقیق کے بعد اس بیزاری کو ٹھوس اعدادوشمار کی صورت سامنے لانے کی جستجو مگر نظر نہیں آرہی۔ اکتائے ہوئے لوگوں کی خواہشات وترجیحات کو کماحقہ سمجھنے کی لہذا کوئی گنجائش نہیں۔ گزشتہ جمعہ کی صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا۔اس کے چند گھنٹوں بعد اورکزئی میں دہشت گردوں نے ایک مسلک کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا۔ میڈیا میں سوال اٹھنا چاہیے تھے کہ نسلی اورمذہبی انتہاپسندی کی بنیاد پر دہشت گردی کی ایک نئی لہر تو شروع نہیں ہوگئی۔ ہمارے وزیر خارجہ نے جمعہ کی شام مگر ایک ٹویٹ کے ذریعے بھارتی وزیر خارجہ کو کرتارپور کی راہداری کی افتتاحی تقریب میں مدعو کرکے توجہ پاک-بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات کی جانب موڑدی۔ ابھی ہم ان امکانات کا مناسب انداز میں جائزہ بھی نہیں لے پائے تھے کہ ایک مذہبی جماعت کے رہ نمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ اس جماعت نے شاہد خاقان عباسی کی وفاقی اورشہباز شریف کی پنجاب حکومت کو راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22دن تک پھیلا
دھرنا دے کر بے بس دکھایا تھا۔ اس بے بسی کی بدولت نوازشریف پر لاہور کی جامعہ اشرفیہ میں جوتا اُچھالا گیا۔خواجہ آصف کے منہ پر سیالکوٹ میں سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان سب واقعات کے اثرات ہمیں 25جولائی 2018کے روز ہوئے عام انتخابا ت میں بھی دیکھنے کو ملے۔ غالب گماں تھا کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ مذکورہ جماعت کا رویہ آنے والے کچھ دنوں تک ’’دوستانہ‘‘ رہے گا۔ سپریم کورٹ سے مگر ایک فیصلہ آیا اور خان صاحب ریاستی رٹ بحال کرنے والی تقریر فرماکر چین روانہ ہوگئے۔ان کی عدم موجودگی میں اس جماعت کے رہ نمائوں سے مذاکرات کے بعد عمران خان کی بے بسی بھی عیاں ہوگئی۔ گزشتہ جمعہ کے بعد سے مگر عمران حکومت توانا اور گزشتہ حکومت کو دیوار سے لگانے والی جماعت بے بس نظر آ رہی ہے۔یہ سب کیسے ہوا؟ اس سوال پر غور کرنے کی کسی کو فرصت نہیں۔سوشل میڈیا پر اس ضمن میں عمران حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے مابین جو بحث جاری ہے وہ خلق خدا کی اکثریت کے ذہنوں پر حاوی بلھے شاہ والے ’’شک شبے‘‘ کی جانب بھرپور انداز میں اشارہ کررہے ہیں۔ کاش مجھے ان کا تجزیہ کرنے کی ہمت نصیب ہوتی۔