دو ہزار سترہ کا پاکستان کن مرحلوں سے گزر کر وجود میں آتا ہے ؟ تحریر : صاحبزادہ عتیق الر حمن
معلوم سیاسی تاریخ میں کوئی بھی ملک زوال کی پستیوں کا شکار ہؤا ہے یا آسمان عروج تک پہنچا ہے۔ تو اس میں سب سے بڑا کردار اس ملک کے باشندوں کا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان آج جس مقام پر کھڑا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری اہالیان پاکستان کی ہے۔
※ پہلا مرحلہ
جب اقتدار کے مزے پاکستان میں اور اولاد ، کاروبار ، جائدادیں ، علاج عیدیں شبراتیں سب کچھ بیرون ملک ہوں ۔۔۔۔
جب اہل ،مخلص اور نظریاتی ساتھیوں کی بجائے چاپلوسوں ، خوشامدیوں اور دلالوں کو حکومتی عہدے بانٹے جائیں۔۔۔۔
جب عدالت عظمٰی کے فیصلوں کو پاؤں کی ٹھوکر میں رکھا جائے۔۔۔
جب نااہل کی خوشنودی اور ایک کرپٹ فرد کی بقا کے لئے پارلیمنٹ سے بل پاس کرائے جائیں۔۔۔۔
جب آرمی چیف اور فوج کے خلاف پراپیگنڈا مشینری پوری قوت سے متحرک رکھی جائے۔۔۔۔
جب سیاست نظریات ، اصولوں اور عوام کی بہتری کی بجائے صرف ذاتی بینک بیلینس میں اضافے اور طاقت کے حصول کے لئے کی جائے۔۔۔۔
جب ذاتی انا اور ضد ملکی مفاد اور سلامتی سے زیادہ مقدم ہوجائے۔۔۔
جب اقتدار عوام کو سہولیات مہیا کرنے کی بجائے شخصی آمریت کا روپ دھار لے۔۔۔۔
جب عوام کے ووٹ سے حاصل ہونے والی جمہوریت کو خاندانی بادشاہت کی طرح چلایا جائے ۔۔۔۔۔
جب قومی خزانہ کو شِیر مادر سمجھ کر ہڑپ کیا جائے ۔۔۔۔
کرپشن ، اقرباپروری ، حکومتی وسائل کی بندر بانٹ کو حق جمہوریت سمجھا جائے ۔۔۔۔
جب فیصلے وزیراعظم کی بجائے اس کی بیٹی اور سمدھی کریں ۔۔۔۔
اور
جب حکمران عوام کے لئے اللہ کی رحمت کی بجائے اللہ تعالٰی کا عذاب
محسوس ہونے لگیں۔۔۔۔
※ دوسرا مرحلہ
جب اپنے بچوں کو عسکریت پسند اور دشمن کے بچوں کو پڑھانا نصب العین ٹھہرے ۔۔۔۔
جب لال مسجد پر مارٹر گنوں اور توپوں سے چڑھائی کی جائے اور فیض آباد دھرنے کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی مخالفت کی جائے ۔۔۔
جب عوام کا پیٹ کاٹ کر بجٹ کا بڑا حصہ بوٹوں والوں کے لئے مختص ہو۔۔۔۔۔
لیکن بندوق والے پھر بھی ہاؤسنگ سوسائٹیوں ، مربعوں ،سیمنٹ ، کھاد اور بیکریوں کے کاروبار میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہوں۔۔۔۔
جب ملک میں جمہوریت ہو تو متوازی حکومت چلائی جائے یا پھر بندوق کے زور پر آمریت مسلط کی جائے۔۔۔۔
جب اپنے ہاتھوں پروان چڑھائے گئے عسکری گروپوں اور طالبان کی ضرورت نہ رہے ۔۔۔۔
اور انہیں دہشت گردی اور بدامنی کے لئے کھلا چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔
جب دہشت گرد جماعت ایم کیو ایم لاڈلی ہو اور دہشت گرد ٹی ٹی پی زیر عتاب اور ملک دشمن قرار پائے ۔۔۔۔
جب مذہبی جماعتوں کو جمہوری حکومتوں کے خلاف پریشر گروپس اور فوجی حکومتوں کا دست راست بنایا جائے۔۔۔۔
جب وطن کی سرحدوں کے لئے جان قربان کرنے والے فوجیوں کو تو میڈیا پر ہیرو ثابت کیا جائے۔۔۔۔
اور دہشت گردوں کے ہاتھوں جان ہارنے والے سپاہیوں ، بلڈی سویلینز پروفیسروں ، دانشوروں اور سیاستدانوں کے لئے کوئی دعائیہ تقریب بھی نہ ہو۔۔۔۔
جب فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ اسلام آباد پر قبضہ کی پلاننگ میں دلچسپی رکھتی ہو۔۔۔۔
جب ملک اسحاق جیسوں کی پوری نسل قتل کردی جائے لیکن ۔۔۔
سیاستدانوں کو اوقات میں رکھنے کے لئے عزیر بلوچوں کو مہمان خصوصی بنا کر اپنے پاس رکھا جائے ۔۔۔
اور
جب گھر والے چور سے زیادہ چوکیدار سے ڈرنے لگیں ۔۔۔
※ تیسرا مرحلہ
جب پگڑی اور داڑھی والے مسجدوں کی بجائے حکمرانوں کے محلوں اور مال داروں کے ڈیروں پر پائے جائیں۔۔۔۔۔
جب جبّہ و دستار کے حامل نااہل حکمرانوں اور ناسمجھ جرنیلوں کی چوکھٹّوں پر سجدہ ریز ہونے لگیں۔
جب مسجد و مدرسے پر علمائے کرام کی بجائے کٹھ ملاؤں کا قبضہ ہوجائے ۔۔۔۔
جب منبر و محراب سے اتحاد بین المسلمین کی بجائے مسلکی نفرت کا پرچار کیا جائے۔۔۔۔
جب قناعت اور سادگی کا درس دینے والے سیاسی ملاں تین تین کروڑ کی لینڈ کروزر میں گھومیں۔۔۔۔
جب اتحاد امت کا پیغام دینے والے غیر معروف رہیں ، اور مسلکی دہشت گرد مشہور و معروف ہوجائیں۔۔۔۔
جب قال قال رسول اللہ صلعم کا درس دینے والوں کی بجائے مغلظات بکنے والے دینی راہنما مانے جائیں۔۔۔۔
جب دینی طلباء کو اسلام کے آفاقی پیغام امن ، صلہ رحمی اور عاجزی کی بجائے نفرت اور تکبر کا سبق پڑھایا جائے۔۔۔۔۔
جب مدرسوں کے طلباء کو تبلیغ کی بجائے گھیراؤ اور جلاؤ کی تعلیم دی جائے۔۔۔۔
جب خطیب عوام کو حقوق العباد اور حقوق اللہ کی بجائے زیادہ چندے کی تلقین کریں۔۔۔۔
جب عالم باعمل کی بجائے شعلہ بیان مقرر ہمارے لئے مشعل راہ ہوں۔۔۔۔۔
جب شاہ احمد نورانی اور عبدالستار خان نیازی کے پیروکار ، مولوی خادم رضوی اور افضل قادری کو راہنما بنالیں ۔۔۔
جب ایران اور سعودیہ کی دولت ملاؤں کو مذہبی وار لارڈز بنادے ۔۔۔
اور
جب مولوی کی وجہ سے اسلام بدنام ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔
※ چوتھا مرحلہ
جب صحافیوں کے کارنامے اور پروگرام دیکھ کر مراثی اور بھانڈ اپنے پیشے سے توبہ کرلیں۔۔۔
جب صحافیوں کے قلم اور کالموں کا بھاؤ دیکھ کر شہر کی طوائفیں اپنا دھندہ چھوڑ دیں۔۔۔
جب شیروانی یا بوٹ والے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے صحافیوں کا بھونکنا سن کر کتے اپنے بھونکنے پر شرمندگی محسوس کریں ۔۔۔
جب صحافی قصیدے لکھ کر حکومتی اداروں میں پر آسائش نوکریاں لیں ۔۔
اور خوشامد اور چاپلوسی کرکے حکمرانوں کے مشیر بن جائیں ۔۔۔
جب سچ کا پرچم اٹھانے کے دعویدار ایوان اقتدار اور جی ایچ کیو کو اپنا قبلہ و کعبہ مان لیں ۔۔۔
جب بندوق والوں اور اقتدار والوں کو للکارنے والے بزرجمہر صحافی اپنے باس کے ایک اشارے پر اپنا بیانیہ بدل لیں۔۔۔۔
جب قلم اور ضمیر بیچ کر شاہ کا مصاحب بننا اعزاز سمجھا جائے ۔۔۔
جب سینئر صحافی اور اینکر ہر پروگرام اور تحریر کے بعد وزیر اعظم ہاؤس یا آئی ایس پی آر سے داد “ وصول “ کرنا اپنا اعزاز سمجھنے لگیں۔۔۔۔
اور
جب صحافی کا لفظ صحافت کے لئے گالی بن جائے ۔۔۔۔۔
تو
پھر چاروں مرحلوں کو صوبائیت کی کڑاہی میں ابال کر مسلکی مکھن کا تڑکا لگائیں تو دو ہزار سترہ کا پاکستان معرض وجود میں آجاتا ہے۔