تحریر: ابتسام الحق شامی
شہریوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔پاکستان میں تعلیم اور صحت ہمیشہ سے ہی حکومتی منصوبوں میں سرفہرست نہیں رہی ،یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں بننے والی تعلیم اور صحت کی پالیسیوں کے وہ اثرات مرتب نہیں ہوسکے جن کے ہونے کی توقع تھی۔ہر آنے والے نئے سال میں یہ عزم کیا جاتا ہے کہ تعلیم اور صحت عامہ کی بہتری پر بھرپور توجہ دی جائے گی اور ان شعبوں میں معیاری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔لیکن سال گزر جاتا ہے ،دعوے حقیقت نہیں بن پاتے۔تعلیم کی طرح صحت کی سہولتوں کی مخدوش حالت نے 80 فیصد پاکستانی عوام کو غیرسائنسی علاج پر مجبور کررکھا ہے۔غیرسرکاری اداروں کے سروے کے مطابق پاکستان میں 1800 افراد کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے ۔یہ شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ موجودہ وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نے ڈاکٹروں کی قلت کے اس اہم عوامی مسئلے کو سمجھتے ہوئے اپنے منصب کے پچھلے دور میںپنجاب میں چار نئے میڈیکل کالجز کے قیام کا اعلان کیا تھا۔یہ میڈیکل کالجز گوجرانوالہ،ساہیوال ،سیالکوٹ اور ڈی جی خان میں قائم کیے گئے۔وزیراعلیٰ کے اعلان کے ساتھ ہی ان میڈیکل کالجز میں میرٹ پر طلباء وطالبات کو داخلہ بھی دے دیا گیا۔ان میں سے ساہیوال اور ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالجز کی بلڈنگزبھی مکمل ہوچکی ہیں۔
ان میڈیکل کالجز کے قیام کو 5سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ،دونوں میڈیکل کالجز میں 1200 میں سے 200طلباء وطالبات کا پہلا بیج کالجز سے فراغت پاچکا ہے ،لیکن ابھی تک ان کالجز کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)کی رجسٹریشن نہیں مل سکی جو کہ میڈیکل کے طلباء کی ڈگری کیلئے ضروری ہوتی ہےْ۔اس ناانصافی کیخلاف دونوں کالجز کے سینکڑوں طلباء گزشتہ ماہ سے سڑکوں پر ہیں اور دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں لیکن ارباب اختیار کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔وزیراعلی شہبازشریف کے پچھلے دور حکومت میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ،اس لیے محکمہ صحت پنجاب اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں نئے میڈیکل کالجز کے قیام کے حوالے سے مسلسل تناو برقرار رہا۔لیکن اب تو وفاق میں ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی حکومت ہے ،پھر ان میڈیکل کالجز کے ہزاروں طلباء کا مستقبل داو پر کیوں لگایا جارہا ہے۔
2010 میں جب ان دونوں میڈیکل کالجز کے قیام کا اعلان کیا گیا تو یہ امید ہوچلی تھی کہ ان پسماندہ علاقوں میں بھی علاج و معالجے کی بہتر سہولیات اور میڈیکل کی اعلی معیار کی تعلیم مہیا ہوسکے گی ۔لیکن پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ان کالجز کی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)سے رجسٹریشن نہیں ہوسکی۔ساہیوال اور ڈی جی خان میں عوام کے پرزور مطالبے پر عوامی نمائندوں نے ان میڈیکل کالجز کے قیام میں تو دلچسپی لی لیکن 5سال بعد بھی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی)کی رجسٹریشن کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرسکے ۔اب جب ان کالجز کے ہزاروں طلباء اپنے مطالبات کے حق کیلئے گزشتہ ایک ماہ سے سڑکوں پرہیں تو ان عوامی نمائندوں نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ منتخب عوامی نمائندے ان طلباء وطالبات کیساتھ کھڑے ہوتے اور ان کے مسائل کو ترجحیی بنیادوں پر حل کروانے کیلئے کوششیں کرتے۔ان دونوں میڈیکل کالجز کے طلباء نے ہرفورم پرآواز اٹھائی ہے اپنے حق کی خاطر عدالت میں بھی گئے ہیں لیکن ان کی خاطرخواہ دادرسی نہیں ہوسکی۔
ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں میڈیا کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ان مسائل کو اٹھائے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ ان میڈیکل کالجز کے طلباء وطالبات کیساتھ ناانصافی پر ریاست کا چوتھا ستون بھی خاموش ہے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ میڈیا مستقبل کے ان مسیحاوں کی آواز بنتا اور ارباب اختیار کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف دلاتا ۔،لیکن یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ میڈیا اس مسئلے پر عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی طرف سے ان کالجز پر یہ اعتراض لگایا گیا ہے کہ ان کالجز میں فکلیٹی کی کمی ہے اس لیے ان کو منظوری نہیں دی گئی۔ان میڈیکل کالجز کے قیام کو 5سال کا عرصہ گزرگیا ہے۔اب فیکلٹی کی کمی کو پورا کرنا بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے ۔کیا اربوں روپے میٹروپروجیکٹس پر خرچ کرنے والی پنجاب حکومت تعلیم وصحت کی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئی ہے؟
میرٹ کے بلندوبانگ دعوے کرنے والے میرٹ کا قتل عام کیوں کررہے ہیں،پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کروڑوں روپے لیکر منظور کرلیتی ہے لیکن ان کالجز کے طلباء وطالبات کا قصور یہ ہے کہ ان میڈیکل کالجز کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے الحاق شدہ ان میڈیکل کالجز نے فیکلٹی کی کمی کے باوجود شاندار نتائج دئیے ہیں۔ساہیوال میڈیکل کالج کا حالیہ ایم بی بی ایس فائنل ائیر کا رزلٹ 98فیصد رہا جو پنجاب کے کسی بھی سرکاری یا نجی میڈیکل کالج سے زیادہ ہے۔اسی میڈیکل کالج کی ایک طالبہ نے ایم بی بی ایس فائنل ائیر کے امتحانات میں سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز میںپنجاب بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔یہی صورتحال جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں قائم میڈیکل کالج کا ہے۔دونوں میڈیکل کالجز نے شاندار نتائج دئیے ہیں لیکن پی ایم ڈی سی کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں میڈیکل کالجز کے فارغ التحصیل طلباء ہائوس جاب اور نوکری سے محروم رہیں گے۔
پاکستان میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز نے میرٹ پر نہ آنے والے طلباء وطالبات کو لاکھوں روپے فیسیں لیکر داخلے دینے کا منافع بخش کاروبار شروع کررکھا ہے۔ان میں سے اکثر نجی میڈیکل کالجز کے پاس لیب اور فیکلٹی کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے افسران ان کالجز سے کروڑوں روپے لیکر انہیں منظوری دے دیتے ہیں۔لیکن شاندار نتائج دینے والے سرکاری میڈیکل کالجز ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔میڈیکل کے شعبے میں کی جانیوالی انہی ناانصافیوں کے سبب پاکستان سے ہرسال ہزاروں ڈاکٹرز بیرون ملک روزگار کیلئے جارہے ہیں۔گزشتہ سال کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان سے 1300سے زائد ڈاکٹرز روزگار کیلئے بیرون ملک گئے ہیں۔اگر سلسلہ یونہی برقرار رہا تو آئندہ چندسالوں میںپاکستان کو ڈاکٹروں کی قلت کے ایک بڑے چینلج کا سامنا ہوگا۔
ایک میڈیکل کالج کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل( پی ایم ڈی سی )میں رجسٹرڈ کرنے کیلئے مخصوص احاطے میں پھیلی عمارت کے علاوہ ایک ٹیچنگ ہسپتال جس میں تمام بڑے شعبہ جات ،ایمرجنسی کا شعبہ ،لیبارٹریزکا ہونا ضروری ہوتا ہے۔پچاس طلباء کے میڈیکل کالج کے طلباء کیلئے اڑھائی سو جبکہ ایک سو طلباء کے کالج کیلئے 500 بستروں پر مشتمل ہسپتال بھی ضروری ہے۔ساہیوال اور ڈی جی خان دونوں میڈیکل کالجز دونوں تھوڑی بہت کمی وپیشی کے ساتھ پی ایم ڈی سی کے اس ضابطے پر پورا اترتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی ایم ڈی سی اس مسئلے پر سیاست کیوں کررہی ہے۔محکمہ صحت پنجاب اور صوبائی بیوروکریسی اس مسئلہ پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں نہیں کررہی۔
میڈیکل کے طلباء اپنی ذہانت اورہونہاری کے لحاظ سے معاشرے کی کریم ہوتے ہیں۔لیکن حکومت اور عوامی نمائندوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے اپنے مستقبل کو خطرے میں دیکھ کر ان میڈیکل کالجز کے طلباء وطالبات نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔دونوں کالجز کے ہزاروںطلباء وطالبات اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل سڑکوں پر ہیں اور دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔طلباء وطالبات اور ان کے اساتذہ کے احتجاج کی وجہ سے تدریسی سرگرمیاں بھی بالکل معطل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اور عوامی نمائندے ان میڈیکل کالجز کے طلباء وطالبات کی آواز بنیں اور حکومت پنجاب بھی ان کالجز کے مسائل کو ترجحیی بنیادوں پر حل کروائے تاکہ ان میڈیکل کالجز کے ہزاروں طلباء اور فارغ التحصیل ڈاکٹرز کے مستقبل پر چھائی بے یقینی کو ختم کیا جاسکے۔
تحریر: ابتسام الحق شامی