وادی سندھ کے سب باسی سائیں ہیں، پانچ ہزار سال پہلے موہنجودڑو کا حکمران پادری بادشاہ تھا، یہ پروہت جسے سادہ زبان میں سائیں کہتے ہیں، مجسموں میں ہلکی ہلکی کنگھی کی ہوئی داڑھی اور پھولوں والی اجرک پہنے آج بھی زندہ ہے۔ ہزاروں سال گزر گئے ہم اب سائیں کے سائیں ہی ہیں، کاہل کے کاہل، مستقبل سے لاتعلق، کولہو کے بیل کی طرح کھوپے پہنے اپنی چھوٹی سی دنیا کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اتنا چل چکے ہیں کہ دنیا مسخر کرلی ہو گی حالانکہ ہم بیل کی طرح ایک دائرے ہی میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔
ماضی سے پیچھا چھڑانا اور اُسے بدلنا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ اسی لئے معاشروں اور ملکوں پر ماضی کی تاریخ کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ پادری بادشاہ کو گئے ہزاروں سال ہو گئے مگر اس وقت کا سائیں آج بھی زندہ و تابندہ ہے، فرض کریں کہ آج کے سائیں کو ملک کی باگ ڈور مل چکی ہے اور یہ سائیں صرف سائیں نہیں بلکہ باقاعدہ سائیں لوک ہے۔ سائیں اکیلا نہیں ہے سائیں کی کابینہ بھی سائیں ہے۔ سائیں کے فیصلے بھی سائیں ہیں اور تو اور سائیں کے اصول اور ایمانداری بھی سائیں ہے، سائیں کے اس دورِ اقتدار میں اہم فیصلے کچن کابینہ کرتی ہے جبکہ کابینہ صرف ربڑ اسٹمپ ہے، اکثر وزیر کو نے لگے بیٹھے ہیں کیا خٹک، کیا غلام سرور اور کیا فواد جہلمی، سبھی اہم فیصلہ سازی سے باہر ہیں۔ سائیں کی اپنی کچن کابینہ ہے جس میں زلف پجاری، سیکرٹری اعظم نوکر شاہی اور سائیں کے دورن خانہ شامل ہیں۔ کچن کابینہ کے مزے ہیں کل تک سرکاری طیارے پر سوار ہو کر یہ سب حجاز کی مقدس فضائوں میں موجود تھے، مزہ اس وقت آیا جب او آئی سی میٹنگ کے لئے سعودی عرب جانے کا وقت آیا، سب سے ضروری مودی ملتانی کا وہاں جانا تھا مگر اسے کہا گیا کہ وہ کمرشل فلائٹ پکڑے کیونکہ جہاز کی سواریاں مکمل تھیں اور ایک سے بڑا ایک ماہر امور خارجہ و بین الاقوامی امور سائیں کے ہم رکاب تھا۔ مودی ملتانی برائلروں کی جماعت میں واحد دیسی مرغی ہے، اسے تو ہر صورت وہاں جانا تھا، چارو ناچار اپنے طور پر وہاں پہنچا، دوسری طرف سرکاری اڑن کھٹولے میں سفر کرنے والوں میں پہلوان انصاف اور ماہر امور خارجہ آسمان گزدار صاحب پیش پیش تھے، اسی طرح پختونخوا سے وزیراعلیٰ محمود سواتی اور پھر ان کے توازن کے لئے وزیر اور مصور و آرٹسٹ عاطف بھی شامل ہیں، زلف پجاری او آئی سی کی میٹنگ میں سائیں کی خصوصی مدد کے لئے ساتھ ساتھ تھے وہ چونکہ بین الاقوامی امور کے مسلمہ ماہر ہیں اس لئے قوی امکان ہے کہ اقوام متحدہ کے اگلے سیکرٹری جنرل کے امیدوار وہی ہوں گے، یوں ہم سائیں پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔
سائیں خوش قسمت بہت ہے، سائیں کے سائیں اس پر بہت خوش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سائیں زرداری اور نواز شریف کو کیفر کردار تک پہنچائے، ٹیکس لگا کر خالی خزانے کو بھرے، باقی بےشک جو چاہے کرے اسے کھلی چھٹی ہے۔ سائیں کے سائیں کہتے ہیں کہ خارجہ اور داخلہ کی وزارتیں بالکل ٹھیک چل رہی ہیں، مودی ملتانی اور اعجاز شاہ کی قابلیت اور کارکردگی پر مہر تصدیق تو ثبت ہو گئی مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوگیا کہ کیا باقی سب وزارتیں کچھ نہیں کر رہیں۔ بات سائیں کے سائیں کی ہے، اس پر کون اعتراض کرسکتا ہے؟
مودی ملتانی کی کارکردگی پر سائیں کے سائیں تو خوش ہیں مگر مودی بیچارہ تو کونے میں لگا بیٹھا ہے، گورنر پنج تاب واحد اتحادی ہے جو اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، عرس ہو تو ملتان چلا جاتا ہے وگرنہ ترین لودھروی نے اسے تنہا کرکے رکھا ہوا ہے، دوسری طرف گورنر اب تک رکشہ ڈرائیوروں، تاجروں اور انصافیوں کی ہر روز افطاریاں کررہے ہیں، اب تک 50ہزار سے زائد افراد گورنر ہائوس میں روزہ افطار کرچکے ہیں، تعلقات عامہ کی اتنی بڑی مہم پر گورنر کے حاسدین بہت ناراض ہیں۔ پارٹی کے اندر ہی سے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں کہ گورنر آخر چاہتا کیا ہے؟ گورنر کی طرح خاموش اور بے اختیار ہو کر کیوں نہیں بیٹھتا؟ آخر یہ بننا کیا چاہتا ہے؟ گورنر افطاریوں میں وضاحتیں دیتے رہے کہ افطاریاں گورنر ہائوس یا حکومتی خرچے پر نہیں کی جا رہیں بلکہ ان کے دوست احباب یہ خرچ برداشت کر رہے ہیں مگر حاسدین کی لمبی زبانیں پھر بھی بند نہیں ہوئیں اور کہا جارہا ہے کہ گورنر کو روکنا پڑے گا۔
ادھر اوپر وفاق میں سائیں کی کابینہ میں 3گروپ ہیں۔ ایک خاموش گروپ ہے جو وزارت ملنے پر خوش ہے، اس گروپ کو حکومتی کارکردگی کی کوئی فکر نہیں، اسے بس اپنے حلقے کی فکر ہے، وہ خاموش رہتا ہے البتہ ترقیاتی فنڈز کم ملنے پر وہ ناراض ناراض سا نظر آتا ہے۔ ایک گروپ جو کچھ کر سکتا تھا وہ زلف پجاری اور اعظم نوکر شاہی کی مہربانیوں سے کونے لگا بیٹھا ہے۔ پجاری اور نوکر شاہی کو سائیں کے کانوں تک رسائی حاصل ہے، یہی رسائی نعیم بنکر کو بھی تھی لیکن وہ صاف دل تھا، سازشی نہیں تھا اس لئے کسی کو بڑا نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں رہا۔ سائیں کی کابینہ میں ایک تیسرا محدود سا گروپ اور بھی ہے جو اپنے پروفیشنلزم کے بل پر اپنی مرضی سے وزارتیں چلاتا ہے۔ اعظم نوکر شاہی اور زلف پجاری کا ان پر بس نہیں چلتا، اسی گروپ میں سے ایک ابن دائود نے بھری کابینہ میں یہ مطالبہ کردیا کہ دفاعی بجٹ میں اضافے کو روکنا ہوگا، اس قدر حساس فقرہ صرف وہی کہہ سکتا تھا، کابینہ نے ایسے ظاہر کیا جیسے کسی نے یہ فقرہ سنا ہی نہیں۔ عقل مندی بھی یہی تھی ……..
کابینہ سے ہٹ کر روحانی حلقہ بھی تیزی سے فروغ پارہا ہے، سائیں کے گھر میں بھی سائیں ہے، زلف پجاری اب اسی حلقے کے سرخیل ہیں، فردوس عاشق بھی اندرونی طور پر روحانی ہیں اور اسی نوری حلقے کے ذریعے کامیابی کے زینے طے کررہی ہیں۔ انہوں نے میڈیا اور حکومت کی دوری ختم کرنے میں مدد کی ہے۔ فنڈز جاری کئے ہیں اور کئی غریب، نادار اور بےکس میڈیا ملازمین کے گھروں میں عید کی خوشیاں دوبالا کردی ہیں۔ اسی حلقے کی ضیاء پاشیوں سے منور ہونے والوں میں لاہور کی ڈپٹی کمشنر صاحبہ بھی ہیں، یہ سعید روشنیاں پھیلتی ہی جارہی ہیں، ابھی تازہ ترین اور معظم اضافہ ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کی تقرری سے ہوا ہے جو لاہور کی ڈپٹی کمشنر کے عزیز ہیں۔ یہ سب سائیں ہیں اور سائیں کے دل و جان سے وفادار ہیں۔ باقی رہ گئے آسمان گزدار صاحب تو وہ پکے روحانی اور سائیں ہیں، اسی لئے فی الحال انہیں ستے خیراں ہیں، البتہ بجٹ کے بعد ایک بار پھر سائیں کے سائیں ان پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ ان کی آنیوں جانیوں کے باوجود ان سے مطمئن نہیں ہیں۔انصافی حکومت اور جماعت کی بکھری ہوئی سوچوں کے باوجود کابینہ کی اکثریت تو مست ہے اور صرف اس بات کی خواہش مند ہے کہ سائیں کی خوشنودی حاصل رہے البتہ چند سر پھرے پریشان ہیں، وہ پارٹی کو مشورے دیتے ہیں، سائیں کو بھی سمجھاتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں کہ سینئر رہنمائوں پر مشتمل ایک کور کمیٹی بنا دی جائے جو سیاسی اور انتظامی فیصلوں پر اپنی رائے دے سکے، کیا اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور کیا صدر علوی اور کیا پرویز خٹک، ان سے زیادہ سائیں کا پرانا اور وفادار ساتھی کون ہو سکتا ہے، مگر زلف پجاری اور اعظم نوکر شاہی ان سے کہیں بارسوخ ہو چکے ہیں۔ یہ المیہ سب کو پریشان کررہا ہے مگر کور کمیٹی ہے کہ بن نہیں پارہی، کبھی یہ بہانہ کہ سیف اللہ نیازی اور کچھ اہم پارٹی رہنمائوں کو شامل کرنا ہے، رک جائیں اور کبھی یہ بہانہ کہ بس کچھ دن اور۔
لیجنڈری شاعر شاکر شجاع آبادی نے کہا تھا ’’میرا چہرہ پڑھ، حالات نہ پچھ‘‘ اس مصرعے کے مصداق حکومتی چہرے پڑھ لیں حالات خود بخود سمجھ میں آجائیں گے۔ آسمان گزدار جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی کو نواز رہا ہے کہ مشکل وقت پر ساتھ کھڑے ہوں گے، اسے علم نہیں کہ وائیں میاں چنوی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ منظور وٹو اوکاڑوی ثم وساوے والے کے ساتھی کیسے پتوں کی طرح جھڑ گئے تھے؟ عید کے بعد سے پھر تبدیلیاں ہوں گی، کتنی ہوں گی اور کتنی نہیں ہوں گی اس پر گفتگو جاری ہے۔ سائیں بےفکر ہے کہ اس کے سائیں اس کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن سائیں بھی گزدار کی طرح یاد رکھے جمالی بھی اپنے باس کو بہت خوش رکھتا تھا مگر پھر بھی اس کی قربانی مانگ لی گئی تھی، سائیں بھی اسی وقت تک پناہ دیتا ہے جب تک اس کے اپنے مفادات محفوظ ہوں۔