قائد حزب اختلاف جناب سید خورشید شاہ صاحب کا بیان سن کر سمجھ میں نہیں آرہا کہ
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
شاہ سائیں فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے تعلیم اور صحت میں ترقی دیکھنی ہو تو سندھ دیکھ لے۔ نجانے کیوں لگا کہ شاہ صاحب تنزلی کہنا چاہ رہے تھے مگر ترقی کہہ گئے۔
صحت کے شعبے پر نظر ڈالیں تو پانچ کروڑ سے زائد آبادی والے سندھ میں گنتی کے سرکاری اسپتال نظر آئیں گے، وہ بھی زیادہ شہری علاقوں میں قائم ہیں۔ صحت کی صورتحال سمجھنے کےلیے تھر کا المیہ ہی بہت ہے جہاں آئے دن نومولود بچے اور بچیاں غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ طُرفہ تماشا یہ کہ سب سے پسماندہ علاقہ ہونے کی وجہ سے روزگار اور تعلیم کے حالات پہلے ہی دگرگوں ہیں۔
تھر کے باشندے صحرائے تھر کی صورت میں بین الاقوامی ورثے کے مالک ہیں۔ لاکھوں ٹن کوئلے کے ذخائر رکھنے والا تھر، پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ اگر کچھ فلاحی تنظیموں نے کنویں نہ کھودے ہوتے تو صورتحال انتہائی افسوسناک ہوجاتی۔
صحت کا بنیادی عنصر ہی صاف پانی ہے۔ سندھ حکومت نے سارے آر او پلانٹ اور ڈی سیلی نیشن پلانٹس (کھارا پانی میٹھا کرنے کے پلانٹس) لگائے ہیں، دل چاہتا ہے کہ شاہ صاحب کا ہم سفر بن کر صرف ان پلانٹس کا دورہ ہی کرلیں تاکہ شاہ سائیں سندھ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا کریڈٹ لے سکیں۔
تھر کی ان خواتین کو روزانہ ایک آدھ روٹی اور لسی کے چند گلاس یا جو مزید کچھ معمولی سی غذا دستیاب ہوتی ہے، اس سے وہ زیادہ سے زیادہ بارہ سو کیلوریز حاصل کر پاتی ہیں۔ اور ان کیلوریز میں سے کم از کم دو سو سے تین سو کیلوریز تو صرف اس مشقت میں صرف ہوجاتی ہیں جو وہ روزانہ میلوں دور سروں پر پانی کے بھاری مٹکے رکھ کر ننگے پاؤں پیدل پانی لانے کےلیے کرتی ہیں۔ جب ماؤں کا عالم یہ ہوگا تو دودھ پیتے بچوں میں کیا غذا منتقل ہوگی اور کیا ان کی صحت کا کیا حال ہوگا؟
یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب سندھ سرکار نے کبھی نہیں دیا۔
صوبے کے دیگر شہروں میں بھی حالات مختلف نہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دینے والے آج تک اہلیانِ سندھ کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں جبکہ بعض اضلاع میں ہیلتھ کارڈ کا اعلان بھی وفاقی حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا مگر ابھی تک کوئی اس طرح کی پیش رفت سامنے نہیں آئی جیسی پنجاب یا خیبر پختونخواہ میں اس حوالے سے ہوئی ہے۔
بلاشبہ ہمارے پاس پیسے، اسپتالوں اور ڈاکٹرز کی کمی ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس پیسے کا غلط استعمال روک دیا جائے تو خاصی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔ علاج گاہیں کم ہیں لیکن زیادہ ضروری یہ ہے کہ پہلے سے موجود اسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل و دیگر اسٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافے سے بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
شاہ صاحب نے دوسرا ذکر تعلیم کا کیا۔ ابھی حال ہی میں ثانوی بورڈ کے امتحانات ہوئے ہیں اور اعلیٰ ثانوی بورڈ کے امتحانات جاری ہیں۔ دونوں میں ایک ہی حال ہے کہ ایک دن پہلے ہی پرچے آؤٹ ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے حل شدہ پرچے امتحانی کمرے میں دستیاب ہیں۔ اب اور سندھ تعلیمی میدان میں کتنی ترقی کرے گا کہ ہر چیز آپ کی دہلیز پر دستیاب ہے۔
اعداد و شمارکے لحاظ سے دیکھا جائے تو شرح خواندگی تقریباً 60 فیصد ہے۔ پرائمری، مڈل، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 46,039 ہے جن میں سے 7,058 اسکول لڑکیوں کےلیے ہیں۔ اِن اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کی کل تعداد 4,044,476 ہے جن میں سے 1,599,528طالبات ہیں۔ اِن طلبہ و طالبات کو پڑھانے کےلیے کل اساتذہ کی تعداد 144,170ہے جن میں سے 44,677 خواتین اساتذہ ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومتِ سندھ اپنے کل بجٹ کا تقریباً 25 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے مگر زمینی حقائق انتہائی تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے کہ بنیادی سہولیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ کل 46,039 اسکولوں میں سے 28,760 اسکول بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ 21,102 اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں۔ 23,315 اسکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں۔ 18,907 اسکولوں کی چار دیواری موجود نہیں۔ اسی طرح جب اسکول میں لیبارٹری، لائبریری اور کھیلوں کے میدان دیکھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ 45,725 اسکولوں میں لیبارٹری ہی نہیں۔ 45,264 اسکول لائبریری جیسی نعمت سے محروم ہیں اور 38,392 اسکولوں میں کھیل کے میدان جیسی کوئی شے نہیں۔ یہ اعداد و شمار کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ یہ سب معلومات حکومتِ سندھ کی ویب سائٹ سے لی گئی ہیں۔
اِن اعداد و شمار سے ہٹ کر اگر محکمہ تعلیم پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ کرپشن سندھ کے محکمہ تعلیم ہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کرپشن میں سندھ محکمہ تعلیم پہلے نمبر پر ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اِس محکمے میں گھوسٹ ملازمین کے علاوہ گھوسٹ اسکولوں کی تعداد دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ تعلیم کے شعبے میں رشوت لے کر ایسے افراد کو بھرتی کیا گیا۔ سابق صوبائی وزیرِ تعلیم پیر مظہرالحق پر غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے مختلف کیسز موجود ہیں۔ تعلیم تو کسی معاشرے کا بھرپور چہرہ ہوتی ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صوبہ سندھ اس حوالے سے بے چہرہ ہے۔
کرپشن کے دیوتا کو قربانی دے دے کر اہلیان سندھ بے حس ہوگئے ہیں۔ مگر کہیں سوچ کے دریچے میں روشنی نظر آئی تو یہ نیا محمد بن قاسم ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ بس کسی بلند آواز کا انتظار ہے کیونکہ روٹی، کپڑا، مکان کے بجائے بھوک، ننگا بدن اور رہنے کو ابھی صحرا میسر ہے۔
سندھ دھرتی کے لوگوں کو بھٹو سے عشق ہے مگر بھٹو کی تیسری نسل بھی سندھ کے غموں کا مداوا نہ کر پائی تو شاید پھر بھٹو بھی
زیادہ دیر تک زندہ نہ رہے۔