تحریر: محمد شاہد محمود
سعودی عرب کے مفتی اعلیٰ و سربراہ علماء شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے واضح کیا ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے حرمین شریفین کے خلاف دشمنوں کے منصوبے ناکام بنادئیے۔ وہ پختہ عزم، بصیرت افروز قیادت اور اہم فیصلے کرنے والی شخصیت ہیں۔ شاہ سلمان نے ایسے عالم میں اقتدار کی زمام سنبھالی جبکہ پورا علاقہ فتنوں، ہنگاموں اور بدامنی کے بحرانوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
ایسے عالم میں امت مسلمہ کے دشمن نفرت اور عداوت کے غماز معاندانہ پروگرام نافذکرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان سب کا ہدف حرمین شریفین کی سرزمین تھا۔ ہمارے دشمن جرائم پیشہ گروہوں کے توسط سے حرمین شریفین کے امن و استحکام کو تہہ و بالا کرنے کے درپے تھے۔ یہ بات مسلم ہے کہ حرمین شریفین پر حملہ اور اس کے امن واستحکام کو خطرات سے دوچار کرنا نہ صرف یہ کہ حرمین شریفین کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اس کے خطرات پوری امت مسلمہ تک پھیلیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں حرمین شریفین واقع ہے جس کی زیارت کے لئے دنیا بھر کے مسلمان آتے ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے فیصلہ کن اقدام کرکے حرمین شریفین کے امن و استحکام کی حفاظت کی۔
فیصلہ کن اقدام نے ریکارڈ وقت میں حوثی باغیوں کے جارہانہ عزائم کو لگام دی۔ شاہ سلمان کے عہد میں اندرون مملکت بہت سارے اہم کام ریکارڈ پر آئے، ریاستی ڈھانچے کی تنظیم نو ہوئی، نئی کونسلیں قائم کی گئیں، دہشت گردی کے خلاف عالمی اسلامی اتحاد تشکیل دیا گیا، اصلاحات نافذ کی جارہی ہیں، بدعنوانی کے خلاف جنگ پوری قوت سے جاری ہے، ریاستی اداروں کی نگرانی اور شرعی اداروں کی تاثیر میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی فیصلوں میں علماء مشائخ کا کردار مضبوط ہوا ہے۔ انہیں عوامی مسائل کے حل میں مشورہ پیش کرنے کا موقع بڑے پیمانے پر دیا گیا۔
حکومت نے تحفیظ قرآن کے سکولوں پر توجہ دی اس سلسلے میں تقریبات کا بھی اعلان کیا گیا۔ایک سال قبل سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی ناگہانی موت کے بعد ان کے جانشین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ایک سال کا عرصہ کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار جانچنے کے لیے کافی نہیں مگر خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی ایک سالہ حکمرانی حیرت انگیز اور تاریخی کامیابیوں، تعمیرو ترقی، ملکی استحکام اور اللہ کے مہمانوں کی خدمت سے عبارت ہے۔ شاہ سلمان نے اپنے پیش روؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک عام شہری کی فلاح وبہبود کے منصوبوں سے لے کر عالم اسلام کی کی بھلائی کے اقدمات تک، خارجہ، داخلہ اور دفاع سے متعق پالیسیوں سے لے کر پڑوسی ملکوں کی سلامتی،سالمیت ،ان کی خود مختاری میں متعاونت تک اور ملک و ملت کے دشمنوں کو قرار واقعی سزا دینے تک ہرقدم پرانہوں نے بہادری اور جرات مندی کی بے مثال خدمات انجام دیں۔
شاہ سلمان نے زمام کار ہاتھ میں لی تو سعودی عرب کا پڑوسی ملک یمن باغیوں کے نرغے میں تھا۔ یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لیے شاہ سلمان نے ”فیصلہ کن طوفان” آپریشن کا عزم بالجزم کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے عالم اسلام کو متحد کرنیاور اسلامی برادری کی توانائیوں کو مجتمع کرنے کا سہرا بھی شاہ سلمان ہی کے سرجاتا ہے۔ معاشی اعتبار سے مضبوط دنیا کے 20 ممالک کے گروپ ”G20” میں سعودی عرب کا موثر کردار شاہ سلمان ہی کے پہلے ایک سالہ دور حکومت میں دیکھا گیا۔ایران کی جانب سے عرب دنیا کے خلاف اشتعال انگیزی کا مظاہرہ ہوا۔
تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے کو نذرآتش کرنے کے اشتعال انگیز اقدام کے رد عمل میں ایران سے سفارتی مقاطعہ کرنے میں بھی سعودی عرب نے پہل کی۔ سعودی عرب کو ایک مضبوط اقتصادی، سیاسی اور عسکری قوت بنانے کا بھی کریڈٹ بھی شاہ سلمان ہی کودیا جائے گا۔شاہ سلمان کی بیعت کے ایک سال مکمل ہونے پر ان کی اندرون ملک کامیابیوں کا تذکرہ کافی تفصیل طلب ہے مگراختصار کے ساتھ بعض اہم اقدامات پیش کیے جا رہیہیں۔ شاہ سلمان نے اپنے پہلے کامیاب ترین دور حکومت میں مملکت کا نیا بجٹ پیش کیا۔ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے بڑے بڑے مضبوط معاشی ٹائیکون بھی ریت کے محلات کی طرح کھسک رہے ہیں، مگر سعودی عرب کے بجٹ میں پورے اعتماد کے ساتھ ایسے اقدامات کیے گئے جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ تیل ہی مملکت کی آمدن کا واحد ذریعہ نہیں۔
جامعہ الامام محمد بن سعودی الاسلامیہ کے زیراہتمام منعقدہ دوسری عالمی کانفرنس کے دوران شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یونیورسٹی کی مرکزی عمارت میں توسیع کیساتھ ساتھ ملک بھر میں اس کے شاخوں کے قیام کی منظوری دی جس کے لیے تین ارب 235 ملین ریال کی رقم مختص کی گئی۔ریاض میں قائم کردہ سائنس اور ٹینیکل سروسز کے شعبوں میں تعلیم دینے والی الیکٹریکل یونیورسٹی کے لیے مختلف منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور یونیورسٹی کی توسیع کے لیے آٹھ ارب 590 ملین ریال کا بجٹ منظور یا۔شاہ سلمان نے جرمنی کی فرانکفرٹ یونیورسٹی کے تعاون سے انسٹیٹیوٹ آف عریبک واسلامی ہسٹری کے زیراہتمام سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میوزیم کا افتتاح کیا۔
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان عبدالعزیز کی ایک سالہ خدمات میں ”شاہ سلمان ریلیف سینٹر” کا قیام بھی شامل ہے۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد سعودی عرب کی جانب سے دکھی انسانوں کی خدمت کرتے ہوئے ان کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ شاہ سلمان نے اپنے نام سے قائم کردہ امدادی ادارے کو ایک ارب ریال کی رقم فراہم کرتے ہوئے مملکت کی جانب سے دست تعاون کا آغاز کیا۔شاہ سلمان کی اندرون ملک ایک سالہ خدمات میں کئی طبی اورتعلیمی اداروں کا قیام بالخصوص وزار برائے نیشنل سیکیورٹی کیزیراہتمام طبی اداریکا افتتاح،شاہ عبداللہ چلڈرن اسپتال اور شاہ عبداللہ میڈیکل ریسرچ سینٹر کا قیام بھی شامل ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ایک سالہ خدمات میں حرمین شریفین کی توسیع سے متعلق خدمات کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بیت اللہ میں کے اندر دو رکعت سنت ادا کرنے کے بعد خانہ کعبہ المشرفہ کو غسل دیا۔
اس کے بعد انہوں نے توسیع مطاف کے تیسرے مرحلے کا جائزہ لیا اور اس حوالے سے ہونے والے کام کی تفصیلی بریفنگ لی اور مکمل ہونے والے منصوبوں کا بھی جائزہ لیا۔ماہ رمضان المبارک میں خادم الحرمین الشریفین نے مکہ مکرمہ میں معذور بچوں کی بہود کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے فلاحی سرمایہ کاری کے پروگرام”خیر مکہ” کا افتتاح کیا۔ مدینہ منورہ میں دورے کے دوران انہیں مسج نبوی کی توسیع کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اس دوران مسجد قباء کی توسیع اور ٹرانسپورٹ کے مختلف منصوبوں سے متعلق بھی انہیں آگاہ کیا گیا۔شاہ سلمان کی عوامی بہبود کی خدمات میں مدینہ منورہ میں شہزادہ محمد بن عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے کا قیام بھی شامل ہے۔
اس ہوائی اڈے کی تکمیل کے پہلے مرحلے میں کے بعد سالانہ 80 لاکھ مسافر سفر کرسکیں گے۔ دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد 18 ملین اور تیسرے اور آخری مرحلے کی تکمیل کے بعد 80 ملین افراد اس ہوائی اڈے سے اندنرون اور بیرون ملک سفر کرسکیں گے۔مسجد حرام کی توسیع کے سلسلے میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پانچ توسیعی منصوبوں کی منظوری دی۔ ان پانچ منصوبوں میں مسجد حرام کے صحن کی توسیع، زمین دوز راستوں کا قیام، بلڈنگ سروسز، پہلے گول روڈ، مسجد حرام کی تین منزلہ عمارت کا قیام شامل ہے۔
مسجد حرام کی توسیع کی بعد اس کی چھت 3 لاکھ 20 ہزار مربع میٹر وسیع ہوگی جس کی بدولت تین لاکھ اضافی نمازی نماز ادا کرسکیں گے۔توسیع حرم کے پروجیکٹ میں سینٹرل سروسز آڈیٹوریم، بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے جنریٹرز کا قیام، ریزرو پاور جنریٹر، پانی ٹھنڈا کرنے کا منصوبہ، حرم مکی میں جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے سمیت کئی دوسرے اقدامات شامل ہیں۔
تحریر: محمد شاہد محمود