counter easy hit

شاہ سلمان بن عبد العزیز کی قائم کردہ مثال

Shah Salman Bin Abdulaziz

Shah Salman Bin Abdulaziz

تحریر : ساجد حسین شاہ
جب کوئی راستہ بھول جاتا ہے تو اسے واپس اسی راستے پر لانے کے لیے کٹھن جدوجہد کی ضرورت ہو تی ہے جیسے گا ڑی جب پٹری سے اتر جا ئے تو واپس پٹری پر لا نا دودھ کی نہر نکا لنے سے ہر گز کم نہیں ایسا ہی کچھ حا ل دور ِرواں میں ہماری امت مسلماں کا بھی ہے کیو نکہ ہم صرا ط المستقیم سے بھٹک چکے ہیں وہ راستہ جس میں دین و دنیا دونوں کی کا میا بی پو شیدہ ہے اسے چھو ڑکر عا رضی رونقوں کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنا لیا ہے زندگی کی ظا ہر ی خو شنما ئی میں ہم بھٹک کر رہ گئے ہیں اور شیطان اپنا فر یضہ بخو بی انجا م دے رہا ہے لیکن اس ڈگر میں ہم شیطان کا کام آ سان کر نے کی جستجو میں ہیںدن بھر میں ایسے بہت سے اعمال ہم سے سر زد ہو جاتے ہیں جو اسلام کے منا فی ہیں اگر ہم احتسا ب کر یں اور ان اعمال پر شر م محسوس نہ ہو تو یہ کہنا مذائقہ نہ ہو گا کہ ایمان کی شدید قلت ہے ۔با را ک اوبا مہ پچھلے دنوں جب انڈ یا کے دورے پر تھے اور وہاں ان کی جو آ ئو بھگت کی گئی وہ آ پنے آپ میں ایک مثا ل ہے انڈ ین وز یر اعظم نے خو شامد میں کو ئی کسر با قی نہ چھو ڑی تا کہ جا ل میں پھنسے امریکن صدر سے ہر ممکن فا ئدہ حا صل کیا جا سکے

بحر حا ل انڈیا کے بعد امر یکن صدر شا ہ عبداللہ کی تعز یت اور نئے فر ما نرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملنے ریاض پہنچے وہاں بھی ان کا استقبا ل بڑے پر تپا ک طریقے سے کیا گیا با دشاہ سمیت شا ہی خا ندان کے متعدد افراد مو قع محل پر مو جو د تھے جنہوں نے اوبا مہ کو خو ش آ مدید کہا لیکن اس مو قع پر ایک ایسا وا قعہ پیش آ یا جس نے اوبامہ کو تو حیران کر دیا اور اسکے سا تھ ساتھ امت مسلماںکے تمام طبقات اور خا ص طور پر حکمرانوں کے لیے ایک مثال قا ئم کی۔ جب نئے سعو دی فر ما نر وا سلمان بن عبدالعزیز اور شا ہی خا ندان کے دیگر افراد امر یکی صدر کے ہمراہ گفت و شنید میں مصروف تھے کہ نما ز عصر کا وقت ہوگیاا اذان کاشروع ہونا تھاکہ سعو دی با دشاہ سمیت تمام افراد مسجد کی طرف چل دیے اور اس صورتحال میں امریکی صدر اوبا مہ اپنی اہلیہ مشل اوبا مہ اور امر یکی سفا رتکا روں کے ہمراہ اکیلے ہی کھڑے رہ گئے یقینا یہ معا ملہ با را ک اوبا مہ کے لیے بہت حیرانگی کا سبب ہو گا کیونکہ تھوڑی ہی دیر پہلے وہ ایسی سر سز مین پر تھے جہا ں انکی آ ئوبھگت ایسی ہی کی جا رہی تھی جیسے وہ لو گ اپنے دیو تا ئوں کی کر تے ہیں مگر یہاں اس پا ک سر زمین پر نظا م اسکے بلکل بر عکس تھا سارے جہا نوں کے ما لک کے سا منے جب سجدہ ریز ہو نے کا وقت آ یا تو با را ک اوبا مہ کو کچھ بتا ئے بغیر تما م مسلمان سجدہ ریز ہو نے مسجد کی طرف چل پڑے جس سے اوبا مہ کو اس بات کا بخو بی علم ہو گیا کہ جس طا قت کے نشے میں وہ چور ہے مسلمانوں کے سا منے اسکی حیثیت صرف عا رضی اور دنیا وی ہے اس واقعے سے ہما رے تمام مسلمان حکمرانوں کو سبق حا صل کر نا چا ہیے۔

سعو دی عرب دنیا کا وہ واحد مسلمان ملک ہے جہا ں مکمل طور پر شرعی نظام نا فذ ہے نما ز کے اوقات میںتمام کا روبا رے زندگی معطل ہو جا تی ہے لو گ اپنی دکا نیں کھو لی چھو ڑ کر نما ز کے لیے چلے جا تے ہیں اور کسی کی مجا ل نہیں کہ چو ری کے بارے میں سو چ بھی سکیں یہ شا ن ہے ہمارے اسلا می نظا م کی۔ با را ک اوبا مہ کے سعو دی دورے میں سب زیا دہ زیر بحث انسا نی حقوق رہے خا ص طور پر حقوق نسواں اگر ہم امریکہ اور سعودی عرب کے معا شرے میں حقوق نسواں کا مو ازنہ کر یں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جو حقوق نسواں اسلام کی رو سے سعو دی عرب میں عورتوں کے لیے مختص ہیں وہ امریکہ میں قا ئم حقوق نسواں سے لا کھ درجے بہتر ہیں یہاں عو رت کو جو مقام دیا جا تا ہے

میر ے نظریے کے مطا بق وہ عو رت کو کہیں بھی نہیں حا صل اگر آ دھی رات کو اکیلی عو رت کسی ویران سڑک پر چلی جا رہی ہو تو اس کے با رے میں غلط نیت رکھنا تو درکنار اسے نظر اٹھا کر دیکھنے کی مجال بھی کسی کی نہیں ہو سکتی یہاں تو عو رت کو وہ شا ہانہ مقا م دیا جا تا ہے کہ اگر عورت اس راستے پر جہا ں مر د ہو آ جا ئے تو مر د وہ راستہ چھو ڑ کر ایک طر ف ہو جا تے ہیں اور عو رت کو گزر نے دیے جا تا ہے کیا با را ک او با مہ کے نز دیک حقوق نسواں یہی ہے کے بے پردہ ہو کر عو رتیں اسے سلوٹ پیش کر تیں اور نا چتیںتو پھر او با مہ صا حب آ پ یہ سمجھ لیں کہ یہ اسلا می معا شرہ ہے یہاں آ پکی اور میری خو اہش کو کو ئی اہمیت حا صل نہیں کیو نکہ یہاں قا نون رب العزت کی قا ئم کر دہ شر یعت کے عین مطا بق ہے اور اس با ت کو بھی سمجھنا چا ہیے کہ امریکہ اور سعو دی عرب میں عورتوں کے خلاف پیش آ نے والے جر ائم میں شر ح کیا ہے

سعو دی عر ب میں اسکی شر ح امر یکہ کی نسبت نہ ہو نے کے برا بر ہے تو کیا ان زمینی حقا ئق سے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ کس معا شرے میں عورت کو اعلیٰ مقام حا صل ہے ایک طر ف با پر دہ عو رتیں مکمل تحفظ میں اپنی زند گی کی ہر خو اہش کی تکمیل کر رہی ہیں جبکہ دو سری طرف بے پر دہ عو رتیں صر ف حو س کے آ لہ کار سے زیا دہ کچھ نہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز 31 دسمبر 1935کو پیدا ہو ئے آ پ سا بقہ مر حوم با دشا ہ کے چھو ٹے بھا ئی ہیں اور با نی سعو دی عر ب کے پچیسویں نمبر کے صا حبزادے ہیں انیس سال کی عمر میں ہی انھیں ریا ض کا مئیر مقرر کیا گیا بعد میں آ پ ریاض کے گور نر بن گئے اسی عر صے میں ریا ض ایک صحرا سے تر قی یا فتہ شہر میں تبد یل ہو گیا

شا ہ سلما ن بن عبد العزیز کے با رے میں مشہو ر ہے کہ وہ اعتدال پسند ہیں اور یو رپی مما لک کے سا تھ اچھے تعلقات کے خو اہا ں ہیں لیکن اسکے سا تھ اس بات میں بھی کو ئی شک و شبہ نہیں کہ اسلا می قو انین کی پیروی انکی او لین تر جیح ہے جسکا عملی مظا ہرہ انھوں نے اوبا مہ کے استقبال کے دوران کیا اور ایسے تمام خیا لات کی منا فی کی کہ انکے دور حکومت میں شا ید اسلا می قو انین کو لے کر لچک دی جا ئے گی اسی طر ح تما م امت مسلماں ان سے یہ امید وابستہ کیے ہو ئے ہے کہ وہ سر زمین جو ہمارے لیے مر کز ی حیثیت ر کھتی ہے وہا ں شر عی نظام تا قیا مت ایسے ہی قا ئم رہے گا۔

Sajid Hussain Shah

Sajid Hussain Shah

تحریر : ساجد حسین شاہ
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631