موجودہ زمانہ بھی عجیب ہے، جسے دیکھو وہی کچھ نہ کچھ بنا ہوا ہے۔ اگر کوئی کچھ نہ بن سکے تو وہ تھنک ٹینک بنا کر اسی کا چئیرمین بن جاتا ہے یا پھر مشرف دور کی لگائی ہوئی جڑی بوٹیوں یعنی این جی اوز میں سے کسی ایک کا رخ کرتا ہے اور اپنا روزگار کماتا ہے۔
سب سے آسان کام یہ ہے کہ آپ اپنی این جی او کے نام پر ہسپتال بنانے کا اعلان کر دیں۔ بہت سے لوگوں نے اس منافع بخش کاروبار سے ترقی کی اور آج کل بڑے بڑے سیاستدان بنے بیٹھے ہیں۔
مجھے آپ کو اور بہت سے دوسرے لوگوں کو ایسے ہی افراد سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بہت سے ابن لوقت مل جاتے ہیں جنہیں صرف اور صرف اپنی موج مستی سے مطلب ہوتا ہے اور ملکی حالات کی بالکل پرواہ نہیں ہوتی۔ ایسے افراد ہی دراصل ملک دشمن ہوتے ہیں۔ میری یہ تقریر اور بھی جاری رہتی اگر ہمارے چئیر مین صاحب نہ آ ٹپکتے۔
“آپ نے وہ حکایت سنی ہو گی؟”، میں نے خود ساختہ چیئرمین تھنک ٹینک سے دریافت کیا۔
“ہم نے تو بہت سی حکایات سنی ہیں۔ نہ صرف سنی ہیں بلکہ ان آنکھوں سے دیکھی بھی ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ڈالر کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ لوگ۔۔۔۔۔”
میں نے بات کاٹی اور کہا کہ “جناب میری بات سنیے نہ کہ اپنا راگ الاپیے۔”
“راگ تو ہمیں صرف ایک کی سمجھ آتی ہے اور ہو ہے راگ ملہار۔ آنسو جب عوام کی آنکھوں سے چھم چھم برستے ہیں تو ہمیں راگ سامنے نظر آنے لگتا ہے۔”
“خدارا آپ میری بات سنیں۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ آپ نے وہ حکایت تو سنی ہو گی؟”
“تم نہ جانے کس حکایت کی بات کر رہے ہو۔” چیئرمین تڑاخ سے بولا۔
“عادل بادشاہ نوشیرواں کے ہرن کے شکار والی حکایت”، میں نے ذرا دھیمے لہجے سے پوچھا۔
“عادل اور بادشاہ، لگتا ہے تم کسی پرانے زمانے کی بات کر رہے ہو۔ ہاں ایک بات دھیان سے، ہم عادل اور عدل کی بات سنتے ضرور ہیں مگر اس پر عمل کا کہنے والے سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔” چیئرمین تھنک ٹینک تنک کر بولا۔
“کیا تم فلاحی معاشرہ کے قیام کے حق میں نہیں ہو؟” میں نے سوال داغا۔
“بالکل ہیں۔ ہیں کیوں نہیں۔ فلاح ہی تو ہمارا مقصد ہے۔ فلاح کے لئے تو ہم جان ہتھیلی پہ رکھ کے پھرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لو ہم نے فلاح کے لئے ہی تو تھنک ٹینک بنایا ہے۔ اپنی فلاح کے لئے ہی مارے مارے پھرتے ہیں۔ جیسے بہت سی فلاحی تنظیمیں۔ بیچاری اتنی مشکل سے چندہ اکٹھا کرتی ہیں اپنی پارٹی میرا مطلب ہے تنظیم چلانے کے لئے!”
“جناب میں آپ کی فلاح کی بات نہیں کر رہا بلکہ معاشرے کی اجتماعی فلاح کی بات کر رہا ہوں۔” میں نے زور دے کر کہا۔
“تم مجھے پروفیسر کم اور احمق زیادہ لگتے ہو۔” (چیئرمین صاحب جب غصّے میں ہوں تو پھر ہمیں کی بجائے مجھے کہنے لگتے ہیں)۔
“کیا معاشرے کی فلاح فرد سے شروع نہیں ہوتی؟ میں اپنی فلاح کا ذکر کرتا ہوں تو دراصل وہ معاشرے کی فلاح ہی ہوتی ہے۔”
“چلو خیر۔ میں بات عادل بادشاہ نوشیرواں کے شکار والی کر رہا تھا۔”
“اچھا بھئی تم کر لو اپنی بات۔” چیئرمین بولا۔
“ہوا یوں کہ ایک دفعہ نوشیرواں جنگل سے گزر رہا تھا۔ اُسے بھوک لگی۔” میں نے کہنا شروع کیا۔
“کیا بادشاہوں کو بھوک نہیں لگتی؟ یہ تو سب سے زیادہ بھوکے ہوتے ہیں۔ ملک گیری کے، شہرت کے اور دولت کے۔” چیئرمین نے بات کاٹی۔
“تم بھی ٹھیک کہتے ہو مگر میں اصلی بھوک۔ کھانے والی بھوک کی بات کر رہا ہوں۔”
“ہم بھی تو کھانے کی بھوک ہی سمجھ رہے ہیں۔ ہر بادشاہ کو کھانے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ چلو تم اپنی بات جاری رکھو۔” چیئرمین نے کہا۔
“ہرن کا شکار کیا گیا۔ اور۔۔۔۔”
“ٹھہرو ٹھہرو۔ ذرا ہرن کے بارے میں بتاؤ کہ کیا یہ القاعدہ کا ایجنٹ تھا، مسلمان تھا یا کشمیری تھا؟ نہیں فلسطینی ہو گا،شامی بھی ہو سکتا ہے؟”
“ہرن جو جنگل میں رہتا ہے اُس کو مارا گیا۔ اُس زمانے میں امریکہ بہادر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی القاعدہ تھی۔ ہرن کا گوشت بھونا گیا مگر نمک نہ باشد۔”
“عجیب بادشاہ تھا۔ نکلا شکار کو اور نمک نہیں تھا۔” چیئرمین شوخی سے بولا۔
“ایک لڑکے کو بھیجا گیا۔ وہ قریبی گاؤں سے نمک لے آیا۔
بھنا ہوا نمک لگا ہوا ہرن بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
بادشاہ نے چکھا ہی تھا کہ ران نیچے رکھ دی اور دریافت کیا کہ نمک کہاں سے آیا؟”
“اتنی چھوٹی بات تو ’’گھریلو شوہر‘‘ بھی نہیں پوچھتے۔ بادشاہ ہو کر نمک کا بھاؤ پوچھنے لگا۔”
چیئرمین نے بے لاگ تبصرہ داغا۔
“قریبی گاؤں سے، جواب ملا۔
کیا اس نمک کی قیمت ادا کی گئی؟ بادشاہ نوشیرواں نے پوچھا۔”
“نمک کی قیمت؟ نمک کی بھی قیمت ہوتی ہے کیا؟ اور کون ادا کر سکتا ہے۔ صرف پرانی یا نئی فلموں کے خاندانی نوکر ہی ادا کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں بیچارے۔” چیئرمین نے قہقہ مار کر کہا۔
“اب روزمرہ زندگی میں بھی نمک کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ جو بھی امریکہ کا نمک کھاتے ہیں۔ اس کا حق ادا کرتے ہیں۔ اگر حق ادا نہ کریں تو بھاری قیمت چکاتے ہیں۔” میں نے جواباً کہا اور بات جاری رکھی۔
“سب حواری خاموش تھے۔ کیونکہ نمک کی قیمت ادا نہیں کی گئی تھی۔ بادشاہ نے ہرن روسٹ کھانے سے صاف انکار کر دیا۔”
“شائد وہ اپنی عوام کا نمک نہیں کھانا چاہتا تھا کہ کہیں اس کا حق نہ ادا کرنا پڑے۔” چیئرمین صاحب بولے۔
“وہ اکیسویں صدی کا بادشاہ نہیں تھا مسٹر چیئرمین۔ مجھے غصہ آنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ عادل بادشاہ نوشیرواں تھا جو حقِ نمک ادا کرنا خوب جانتا تھا۔”
“تو پھر اُس نے ایسا کیوں پوچھا؟” چیئرمین نے پوچھا۔
“بادشاہ نے کہا کہ اگر اُس کے کارندے بادشاہ کے لئے چٹکی بھر نمک پیکیج کے تحت حاصل کریں گے کہ یہ شہنشاہ معظم کا حق ہے تو وہ خود ساری کانیں گھر لے جائیں گے۔ اگر بادشاہ کسی کے باغ سے ایک پھل بلا قیمت چکھے گا تو اُس کے حواری جڑوں سمیت پودے کھا جائیں گے۔بادشاہ ایک انڈا غصب کرے گا تو کارندے مرغیوں کے غول کے غول اُڑا ڈالیں گے۔” میں نے پر جوش اور پندانہ لہجے میں بات ختم کی۔
“میرا خیال ہے یہ کوئی پرانے زمانے کا دقیا نوسی بادشاہ تھا جو ایسے فرسودہ بیانات جاری کرتا تھا۔ نمک کی کان کھا جائیں گے۔ باغ کا باغ اکھاڑ پھینکیں گے۔ آج کل تو نمک کو کوئی پوچھتا بھی نہیں بلکہ سونے کی کانوں پر قبضے کی کوشش کی جاتی ہے اور باغوں پر کھلیانوں پر اور خالی پلاٹوں پر اپنا حق سمجھ کر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔
مرغی کے بارے میں تو مثل مشہور ہو چکی ہے کہ جتنی مرغیاں پھنس سکتی ہیں پھنساؤ۔ اس پر دستاویزی فلم بنائی جائے تو بہت مشہور ہوگی اور فیچر فلم تھوڑی سی بات بڑھا چڑھا کر اور ایک دو گانے اور لڑائی کے مناظر ڈال کر آسکر ایوارڈ حاصل کر سکتی ہے۔” چیئرمین تھنک ٹینک نے کہا۔
میں اُس کا تبصرہ سن کر اُس کا گرویدہ سا ہوگیا اور ایک دستاویزی فلم بنانے کے متعلق منصوبہ بندی کرنے لگا۔ میں مان گیا کہ تھنک ٹینک واقعی تھنک ٹینک ہوتا ہے اور میرے محترم ایسے ہی اُس کے خود ساختہ چیئرمین نہیں بنے ہوئے۔