تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
امریکہ کے انعام یافتہ اور مشہور صحافی جن کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے اور جنہوں نے ویت نام کی جنگ کے دوران بھی اہم انکشافات کر کے دنیا میں ایک نام پیدا کر لیا تھا۔ اس کے بعد الغریب جیل عراق کی کہانی ساری دنیا پر منکشف کر کے امریکیوں کے منہ پر کالک مل دی تھی۔ جنکو سمور ہرش کے نام سے ساری دنیا جانتی ہے۔اس نامور صحافی نے امریکہ اور ہمارے پلانٹیڈ ہیرو،جو القاعدہ کے بھی سر براہ تھے،اسامہ بن لا دن کے خلاف کئے جانے والے فوجی آپریشن پر جوامریکی ملاحوں کے 2 جولائی 2011 کے ایبٹ آباد کے حساس فوجی علاقے میں شب خون مارنے اور عسکریت پسندی کے آپریشن پر منتج ہوا تھا ۔اس آپریشن کی پول ساری دنیا کے سامنے کھول کر دنیا کو ورتہ حیرت میں ڈل دیاتھا اور ایسے ایسے انکشافات کر ڈالے کہ پاکستانی قوم بھی محوح حیرت رہ گئی۔اس آپریشن سے متعلق دس ہزار الفاظ پر مبنی جو رپورٹ سمور ہرش نے مرتب کی وہ ہم پاکستانیوں کی حیرت میں بے حد اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاک فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجُا پاشا اور امریکی حکومت کے مابین زبردست تعاون سے اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔جس پر ہمارے ادارے تو مسلسل تاسف کا ہی اظہار کرتے رہے مگر سب کچھ ہوا مل ملا کر۔اسا مہ بن لادن کے رہائش کے مقام کو مسمار کئے جانے نے بھی اعلیٰ عسکری افسران کے اس معاملے میں شامل ہونے کی طرف ہی اشارے دیئے تھے۔ ہرش کا اس آپریشن کے بارے میں کہنا ہے کہ وائٹ ہاﺅس کیجانب سے یہ کہا جانا کہ بن لادن کے خلاف کیا جانے والا آپریشن پورا کا پورا امریکی کاروائی تھا اور یہ کہ پاکستانی سینئر جنرل اور آئی ایس آئی کو اس کاروئی کی بالکل خبر نہ تھی،یہ باتیں سراسر جھوٹی ہیں،اور اس میں سب سے بڑا جھوٹ یہ تھا کہ پاکستان کے دو انتہائی سینئر جنرلز پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے شُجاع پاشا کو امریکی کاروئی سے متعلق بالکل علم نہ تھا۔
یہ باتیں ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں سوال بن کرگردش کر رہی تھیں کہ اسامہ بن لادن پر کمانڈو حملہ کیونکر کیا گیا۔مگر ہرش نے اس کفر کو توڑنے کی کوشش کی تو ہمارے کئی لوگوں نے اس کی اصلیت پر بھی شُبہات کا اظہار کرنا شروع دیاہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسی سال کے موسمِ بہار میںمیرا رابطہ سابق جنرل درانی سے ہوا ، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اسامہ کے جاں بحق ہونے کے بعد کیانی اور شجاع پاشا کے ساتھ کیا جانے والاوعدہ کیا گیا تھا کہ بن لادن کے جاں بحق ہونے سے متعلق دس دن تک کوئی اعلان سامنے نہیں آئے گا۔اور بعد میں یہ کہہ دیا جاسئے گا کہ اُسامہ کی ہلاکت ڈرون حملے کے نتیجے میں ہوئی ہے اسوعدے کو امریکیوں نے توڑا دیا۔ہرش کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن 2006 ، سے ایبٹ آباد میں پاکستانی فوج کے زیرِ حراست تھے۔یہ بات بھی کیانی اور پاشا کے علم میں تھی کہ دو امریکی ہیلی کوپٹر ز نیوی کے ملاحوں افغانستان سے پاکستان کی فضائی حدود میں بغیر الارم بجائے پہنچ جائیں گے۔
اس حوالے اس کا مزید یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستانی فوج کے ایک سینئر انٹیلی جنس آفیسر نےاسبات کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ اس سلسلے میں 25، میلین ڈالر کا سوادا ہوا تھا۔وہ مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکی صدر بارک ابامہ نے اس کاروئی کا حکم دیا تھا۔اس سلسلے میں ہرش کا کہنا ہے کہ ان تمام معلومات کا ذریعہ ایک انتہائی سینئر انٹیلی جنس آفیسر تھا۔جس کے پاس اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے حوالے سے مکمل معلومات موجود تھیں۔اور اسے امریکی نیوی ملاحوں کی تربیت کا بھی علم تھا۔ پاکستان کی جانب سے فوجی قیادت اور آئی ایس آئی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ نے بن لا دن کی موت کے بعد ہی خبر جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ہمارا ماننایہ ہے کہ ایسا اس وجہ سے کیا گیا کہ ابامہ اپنی قوم کو اپنے حق میں موڑ کر آنے والے صدارتی الیکشن میں ناکامی سے بچ جائیں
اس آپریشن کی اطلاعات سے ایسا ہی ہوا کہ عوام کی ہمدردیاں ابامہ کے حق میں منعطف ہوگئیں اور الیکشن میں کامیابی کا ثمر ابامہ نے سمیٹ لیا۔ہرش کی پیش کردہ رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اُسامہ بن لادِن کی لاش کو سمندر برد نہیں کیا گیا تھا۔وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے جس افسر نے2010 ،میں بن لادِن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی خبر دے کر 25 امیلیں ڈالر وصول کئے اُس کو بحفا ظت امریکہ پہنچا دیا گیا۔جو واشنگٹن کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہے اور اب وہ سی آئی اے میں بطور کنسلٹینٹ کے ملازمت کر رہا ہے۔اس سے اگلے مہینوں میں امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات اس بات کی تصدیق کے لئے حاصل کی کہ بن لادِن ایبٹ آباد کے ایک کمپاﺅنڈ میں رہائش پذیر ہے۔اس جاسوسی پر شکیل آفریدی کو بھی خوب نوازشیں ہوئیں مگر بد قسمتی سے اس کا جاسوسی کرنے کا احوال اداروں کے سامنے آگیا اور وہ امریکہ بھاگنے نہیں پایا۔
سمور ہرش اپنی رپورٹ میں مزیدیہ بھی انکشاف کرتا ہے کہ اسوقت بن لادِن ناکارہ ہوچکے تھے۔لیکن ہم یہ بات نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ایک معذور یا ناکارہ شخص جو کلاشن کوف بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کسی کو گولی سے مار کر ہلاک بھی کر سکتا ہے!!! ہم دنیا کے سامنے یہ بات کیسے کہتے؟ ہرش یہ بھی دعویٰ کرتا ہے ،کہ جیسا تعاون امریکہ کو پاکستان سے درکار تھااس کے حصول میں امریکہ کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی۔اس موسمِ بہار کے دنوں میں ایک مرتبہ جنرل پاشا نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کی تھی کہ”کیاوجہ تھی کہ جس تحت کے بن لادن کی گرفتاری کوخفیہ رکھا گیا۔اور آئی ایس آئی کیلئے یہ کیوں ضروری تھا کہ یہ بات راز رہے“ایک ریٹائرڈ افسر کے مطابق پاشا کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی بن لادِن کو طالبان اور القاعدہ کے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔اور طالبان اور القاعدہ کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ ان کی کاروائیوں کی وجہ سے آئی ایس آئی کو نقصان ہوا تو اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔اور پریکٹکلی بھی اسامہ کو امریکیوں کے حوالے کر ہی دیا گیا تھا۔
کیا عجب تماشہ ہے کہ پہلے ایک شخص کو جہادی مواد ہاتھ میں تھما کر کہا جاتا ہے کہ تمہی ہو جو اسلام کے خطرے کو ٹال سکتے ہوئے ۔لہٰذا روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر جہاد کرو اور خطے میں لادینی نظریات کو روکو تاکہ اسلام کا خطرہ ٹل جائے ۔امریکہ نے اپنی پاور کو محفوظ رکھا اور مسلمان مجاہدین کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جب مطلب براری ہوگئی تو اسی مجاہد اعظم کو 9/11 ، کا واقعہ کراکے دہشت گرد اعظم نا صرف امریکہ نے بنا دیا بلکہ ہم بھی اُس کے ہمنوا بن بیٹھے۔یورپ کا یہ ایجنڈا ہے کہ جس قدر بھی ہو سکے مسلم دنیا کو بہانے بہانے سے ناصرف تباہ کرو بلکہ ان کے درمیان آپس میں بھی فساد برپا کراتے رہو تاکہ یہ سکون کا سانس لے ہی نہ سکیں۔اس کام میں ہمیشہ مسلم بکاﺅ مال استعمال ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbir4khurshid@gmail.com