لاہور (ویب ڈیسک) اب میں خان صاحب کی شان میں گستاخی بھی نہیں کر سکتا وہ تازہ تازہ اقوام متحدہ کی اننگز کھیل کے آئے ہیں اور اس واہ واہ میں کم از کم تین ماہ تو نکال لیں گے۔ اپوزیشن کا کہنا ٹھیک ہے میں اپنے پیارے بھانجے بلاول کے ساتھ کھڑا ہونگا۔
نامور کالم نگار ایثار رانا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ جو کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔ بھلا صرف تقریروں سے کچھ ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے تھا کہ اقوام متحدہ میں ذرا دبنگ انٹری دیتے۔ ان کے پیچھے پورا وفد بھنگڑے ڈالتا آتا۔ بلکہ اگر شاہ محمود قریشی خالص روائتی بڑھکیں بھی مارتے تو مزا آ جاتا۔ خان صاحب ایک جیب سے بم نکالتے اور چیئرکرنے والے صدر کی جانب پھینکتے اور کہتے اوئے صدرا میں پھٹیاں بھن دیاں گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ وفد کسی طرح مودی کے خطاب سے پہلے ان کے مائیک میں کرنٹ چھوڑ دیتا۔ اور وہ جیسے ہی نمستے کے بعد مائیک کو ہاتھ لگاتا اس کے منہ سے نکلتا او تہاڈی ………… عمران خان دنیا کو اسلامو فوبیا سے نکالنا چاہتے ہیں اور ہماری اپوزیشن عمرانو فوبیا سے نہیں نکل رہی۔ یاد رکھیں اقوام متحدہ میں عمران خان نے نہیں پاکستان کے وزیر اعظم نے خطاب کیا تھا لیکن کیا کریں ہم ٹہرے صدیوں کے شخصیت پرست۔ تاش کے باون پتے ہوتے ہیں انہیں جتنا مرضی پھینٹ لیں وہی باون رہتے ہیں۔ کابینہ میں آپ جتنی مرضی تبدیلیاں کر لیں۔ ہوں گی انہی باون پتوں میں سے۔ کبھی دوکی اوپر آ جائے گی کبھی تکی کبھی بیگم تو کبھی گولا،وزیر اعظم عمران خان حقیقت میں بادشاہ ہیں۔ ملک میں تو تبدیلی کیا لانی وہ اپنی کابینہ میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اس بار جو وہ کرنے جا رہے ہیں وہ ایسے ہی ہے کہ آپ رکشہ کے ایک جانب سے اندر آئیں دوسرےدروازے سے باہر نکل جائیں اور کہیں لو جی ہماری تو دنیا تبدیل ہو گئی۔ افسوس کئی وزراء کی تو ابھی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی کہ انہیں دیس نکالا مل رہا ہے۔ یعنی حسرت ہے ایسے غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا جائیں گے ہمیں بھی بہت شوق تھا تبدیلی دیکھنے کا،چلیں وہ شوق بھی ہر تین چارماہ بعد پورا ہو رہا ہے۔ سنتا سنگھ کے ہمسائے کی بھینس کے سینگ بہت بڑے بڑے تھے۔ وہ جب بھی اس کے قریب سے گزرتے،سوچتے”جے میریاں لتاں ایس دے سینگاں وچ پھنس جان تے کی ہووے گا“۔ایک دن انہوں نے زبردستی اپنی ٹانگیں اس کے سینگوں میں پھنسا لیں۔ بھینس نے انہیں ٹپک ٹپک کے مارا۔ سنتا سنگھ لہولہان ہسپتال پہنچ گیا۔ ہمسائے نے کہا سوری میری بھینس نے آپ کو مارا۔ سنتا سنگھ بولا چلو جی کوئی گل نئی اے ٹینشن تے مک گئی کہ جے لتاں پھنسن تے کی ہووے گا۔ آپ کا مجھے نہیں معلوم لیکن میری تو ٹینشن ختم ہو گئی۔شاید اسے ہی کہتے ہیں کہ رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے۔ میری بات پلے سے بلکہ پلو سے باندھ لیں۔ آپ کنویں سے سو کیا ہزاروں بالٹیاں بھی پانی نکال لیں کچھ نہیں ہو گا جب تک آپ کتا نہیں نکالتے۔ مرد کی شیو اور ملک کی تقدیر باتوں سے نہیں عمل سے بنتی ہے۔اگر آپ تاش کے باون پتوں سے کھیلیں گے تو یہی پتے پہلے نوازشریف کے ہاتھ میں تھے یہی مشرف کے ہاتھ رہے۔
یہی پیپلزپارٹی کے تھے اور یہی تحریک انصاف کے اورجمہوریت؟؟؟ جمہوریت اکتہر سال میں کبھی رہی ہو تو اس کا ذکر بھی کر لیں گے۔ سیاست کی کھوتی ہمیشہ مفادات کے بوڑہ تھلے ہی کھڑی ملے گی۔ بنتا سنگھ کا کھوتا گم ہو گیا۔ وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا تھک گیا اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔ قریب ایک پریمی جوڑا بیٹھا تھا،عاشق کہنے لگا جانم مجھے تمہاری آنکھوں میں سارا جہاں نظر آتا ہے۔ سنتا سنگھ فوراً بولا یار دیکھیں کدرے مرا کھوتا نظر آ رہا ہے۔مجھے تو کوئی ایسا عاشق ہی نہیں ملتا جسے کہوں کہ دیکھیو بھائی اکہتر سال سے جمہوریت گم ہے کہیں نظر آتی ہے کیا؟؟کہتے ہیں بے ایمانی کے کاموں میں بے ایمانی نہیں کرنی چاہئے لیکن کیا کریں مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف اور بلاول کی تری مورتی میں تینوں ہی ایک دوسرے پر یقین نہیں رکھتے۔شریک جرم لوگ ایک دوسرے کوخوب پہچانتے ہیں۔اس لئے فضل الرحمن شہبازشریف کو شہباز، بلاول کو ننھا بلاول دونوں انکلز کو بے وقوف بناتا رہے گا۔ سنتا سنگھ گھرپسینے سے شرابور آیا۔ بیگم بولیں کیا ہوا کہنے لگا مَیں اپنے دوست کی بات پر اعتماد کر بیٹھا۔ اس نے کہا تھا کہ کتا سامنے آئے تو بیٹھ جاؤ۔ مَیں گھر آ رہا تھا کہ گلی میں کتا آ گیا، میں نیچے بیٹھ گیا، بیگم بولیں، پھر سنتا سنگھ بولا پھر کیا کتا ہی میرے ساتھ بیٹھ گیا۔دو گھنٹے بیٹھا رہا او اٹھ کے گیا تے میں گھر آیا واں۔اپوزیشن، پسینوں او پسینہ ہو جائے گی اٹھ کر نہیں جائے گی، کیونکہ جس نے انہیں یہ مت دی ہے اس نے کتے کو ہی سکھایا ہے کہ اٹھنا نہیں۔