تحریر : آصف محمود
چندروزپہلے بھارت جانے کا اتفاق ہواجہاں ہربجن سنگھ براڑ سے ملاقات ہوئی، ہربجن سنگھ امرتسر کے رہنے والے ہیں اور سائیں میاں میرانٹرنیشنل فاونڈیشن کے سربراہ ہیں۔یہ فاونڈیشن 1947میں بچھڑے ہوئے خاندانوں کو ملانے کا کام کررہی ہے اور ابتک سینکڑوں لوگوں کو ملواچکی ہے ، تقسیم کے وقت جہاں دنیا کے نقشے پر دوملک وجود میں آئے وہیں کئی ایسے واقعات بھی ہوئے جب کوئی رضیہ بلونت کوربن گئی اورکسی پریت کور کو نجمہ کا نام مل گیا۔۔۔تقسیم کو 68برس بیت گئے لیکن آج بھی کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں اپنوں کی تلاش ہےباباہربجن سنگھ براڑنے ایسی ہی ایک خاتون کرتارکور بارے بتایا، کرتارکور کی عمراس وقت کو ئی اسی سال کے قریب ہے، اس کے شوہرکا نام چندسنگھ اوروالد کا نام رحمت علی جبکہ والدہ کا نام بیبوہے۔۔میں حیران ہوا،سردارجی کرتارکورتوآپ سکھوں میں نام رکھتے ہیں ،پھراس کے والدکانام رحمت علی کیسے ہوگیا۔۔سردارجی نے کہا۔۔پتر،یہی توالمیہ ہے۔۔کرتارکورکا نام جنداں تھا، یہ لوگ مشرقی پنجاب کے علاقہ جگراوں میں رہتے تھے۔
جہاں ،سات ،آٹھ خاندان مسلمانوں کے تھے ،باقی ساری آبادی سکھوں کی تھی ،انیس سوسینتالیس میں جب تقسیم ہوئی توجگراوں پنڈکے گوردوارے میں بھی اعلان ہواکہ یہاں رہنے والے مسلمان اب پاکستان جائیں گے ،ان کا الگ ملک بن گیا ہے ، جنداں۔۔اپنے تین چھوٹے بھائیوں ،ماں باپ اورخاندان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی جنم بھومی کو خیربادکہہ کر پاکستان کی طرف چل پڑی ،راستے میں سکھوں کے ایک جھتے نے حملہ کیا ،قافلے کے بہت سے لوگ زخمی ہوگئے ،جنداں کو چند سکھوں نے زبردستی اٹھا لیا،اس نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی علی کوگودمیں اٹھارکھا تھا،سکھوں نے اس بچے کو چھین کروہیں پھینک دیا اورجنداں کو ساتھ لے گئے،قدرت کو شاید اس بیچاری پررحم آگیا۔
سکھ جب نوجوان جنداں کو اٹھا کرلے جارہے تھے توچند سکھ سرداروں کا ایک اورجتھ سامنے آگیا ،انہوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ ایک مجبوراوربے بس لڑکی کو زبردستی ساتھ لے جارہے ہیں توانہوں نے للکارامارااورپہلے والے سکھ جنداں کو چھوڑکربھاگ گئے۔۔۔اس جتھے میں چند سنگھ بھی شامل تھا جو جنداں کو اپنے گھرلے آیا ،پھراس کے ماں باپ کی تلاش شروع ہوئی ،بہت سے ایسے کیمپوں میں معلوم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جنداں کا ماں باپ کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔۔۔ چندسنگھ کے گھرمیں اس کی ایک بہن اوروالدہ رہتی تھیں ، ایک دن چند سنگھ کی بہن نے جنداں کو کہاں ،،بہن ہم نے بہت کوشش کی لیکن تمھارے ماں باپ کا معلوم نہیں ہوسکا ،اگرتم کہوں تو ہم یہاں کوئی مسلمان خاندان دیکھ کرتمہاری شادی کردیتے ہیں۔۔۔ جنداں نے کہا اگرایسا ہی کرنا ہے تو پھرچند سنگھ سے ہی نکاح پڑھوا دیں ،،،اس نے میری عزت بچائی ،یہ میرارکھوالاہے اور یوں جنداں کی شادی چند سنگھ سے ہوگئی اور جنداں سے کرتارکوربن گئی۔
اتنابتانے کے بعد سردار ہربجن سنگھ رک گئے اورکہنے لگے ‘اوہ کاکا کجھ کھاپی وی لے۔۔توتاں چاء وی نہیں پیتی۔۔۔ویکھ ٹھنڈی ہوگئی ایی،،میں نے کہا جی سردار جی اورمیں نے چائے کا گھونٹ لیا۔۔۔لیکن جو کہانی سردارجی نے سنائی تھی یہ شاید اس کا اثرتھا کہ دسمبرکی سرد صبح میں بھی خالص دودھ سے بنی گرما گرم چائے کڑوی محسوس ہورہی تھی۔۔۔ مجھ سے صبرنہ ہوا، میں نے پوچھا براڑصاحب اب کہاں ہے۔۔جنداں ،میرا مطلب کرتارکور۔۔۔ ہربجن سنگھ براڑ نے کہا چندماہ پہلے اس خاتون کے پاسپورٹ کا کاپی اوردو تصویریں مجھے ڈاک کے ذریعے ملیں ،وہ خاتون جھتے کے ساتھ پاکستان جاناچاہتی تھی ، اس کے ماں باپ اس وقت جھنگ شہرمیں رہتے ہیں۔۔ہم نے پاکستان جانے والے جھتے میں کرتارکورکا نام بھی ڈال دیا اورایک ماہ بعد اس کا بھی ویزالگ گیا،میں نے ٹیلی فون پرانہیں اطلاع دی کہ آپ لوگ فلاں دن امرتسرپہنچ جائیں یہاں سے ہم اٹاری جائیں گے اورپھرٹرین کے ذریعے پاکستان کے لئے روانہ ہوں گے۔
روانگی سے ایک دن پہلے ہی کرتارکورمیرے گھرپہنچ گئی ،اس کا ایک بیٹا بھی ساتھ آیا تھا۔۔۔تب ہی کرتارکورنے مجھے یہ ساری کہانی سنائی تھی ،،،اس دوران میں نے پاکستان میں اپنے دوستوں کی مدد سے کرتارکورکے خاندان کا سراغ لگا لیا اوران کا فون نمبرلے لیا تھا، اس کے بھائی علی کا نمبرملاتھا،اسے فون کرکے جب میں نے جنداں بارے بتایا توپہلے تو وہ مذاق سمجھتارہا لیکن جب اسے یقین ہوگیا کہ ان کے بہن زندہ ہے تو اس کی آوازرند گئی ،وہ رونے لگا تھا۔۔میں نے اسے بتایا کہ ہم جتھ لیکرفلاں تاریخ کو لاہورکے واہگہ بارڈرپہنچیں گے ،تمھاری بہن بھی ساتھ ہوگئی توکہنے لگا سرادجی ہم پوراخاندان اس لینے آئیں گے۔۔۔ اورپھرایسا ہی ہوا، سیکیورٹی کی وجہ اس خاندان کو واہگہ ریلوے اسٹیشن آنے کی اجازت تونہیں ملی تھی لیکن وہ لوگ لاہورریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔۔ تیس چالیس کے قریب لوگ تھے ،،،کرتارکورکے والد رحمت علی۔۔۔۔اس کے تینوں بھائی ،بھابیاں ،،ان کے بچے اورخاندان کے دیگرلوگ۔۔۔بس ایک ہستی نظرنہیں آرہی تھی۔۔۔ بیبو۔۔۔جس نے کرتارکوریعنی جنداں کو جنم دیا تھا۔
وہ بیچاری کئی سال تک بیٹی کی جدائی کا دکھ سینے سے لگائے اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔۔۔ جنداں باپ کے سینے سے لگ کرروتی رہی۔۔۔جو کبھی بیٹی کے پیشانی چومتا تو کبھی اسے حوصلہ دیتا،،،تینوں بھائی بھی اتنے برسوں بعد بہن کو دیکھ کرفرط جذبات میں رو رہے تھے۔۔۔ سڑسٹھ برسوں بعد ایک بدنصیب کو آج اس کا خاندان ملا تھا۔۔۔ جنداں کی کہانی سن کرمیری آنکھیں بھی نم ہوگئیں ، دوآنسو تھے جو کسی بھی وقت کناروں سے چھلک جاتے ،،،میں نے ٹشو سے آنکھیں صاف کیں۔۔۔سردارجی بھی یہ واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔۔کہنے لگے ،،اپنوں سے جدائی کا دکھ وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے تقسیم کے وقت کسی اپنے کو کھویا ہو۔۔۔دو ملک بن گئے ، بٹوارا ہوگیا۔۔۔۔مگرآج بھی کئی خاندان ایسے ہیں جن کے پیارے ایک دوسرے ملک میں رہ گئے ،سائیں میاں میرفاونڈیشن ایسے ہی بچھڑے خاندانوں کو ملانے کا کا م کررہی ہے اورابتک سینکڑوں خاندانوں کو ملواچکی ہے ،بابا جی نے یہ بھی کہا کہ اگرپاکستان میں کوئی ایسا خاندان ہے جس کے پیارے ہندوستان میں رہ گئے تووہ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں اوہ ہرممکن کوشش کریں گے کہ ان بچھڑے ہوئے کو آپس میں ملایاجاسکے۔
تحریر : آصف محمود