”سمجھ گیا۔“ میں نے کہا ”تم نئے لوگوں کو چانس دے گا اور پُرانا بلیک
ایڈجسٹ کرے گا۔“”تم ٹھیک سمجھا ہے۔“ سندر بس جانی نے کہا۔”میں جاتا ہوں۔“میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔سندر نے جھٹ مجھے بازو سے پکڑ لیا۔‘ ”کدھر جاتا ہے؟“”واپس فٹ پاتھ پر۔“
”پاگل ہوا ہے؟“”ہاں‘ پاگل ہے ہم۔ پچاس روپے لے گا تو پچاس کی رسید دے گا پانسو لے گا تو پانچ سو کی رسید دے گا۔ ہم کالا دھندا نہیں کرے گا۔“اس پر وہ دونوں پہلے تو چُپ رہے پھر ایک دمِ زور زور سے ہنسنے لگے۔ اتنا ہنسے اتنا ہنسے کہ ان کی آنکھوں میں پانی آگیا‘ ہنستے ہنستے دونوں میری طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کراشارہ کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے۔
”بالکل بچہ ہے۔“
”ایک دم کچا ہے۔“
”سالا گدھا ہے۔“
”نرا اُلّو کا پٹھا ہے۔“
”سالا تم کس دنیا میں رہتا ہے؟“ سیٹھ بس جانی نے مجھے ایک بیزار کن نفرت سے د یکھتے ہوئے کہا۔
”رسید کے بغیر میں آپ کو اس کی اجازت نہیں دوں گا۔“
وہ حیرت سے میرا منہ دیکھنے لگے۔ ایسے جیسے کسی پاگل کو پاگل خانے میں دیکھ رہے ہوں۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ آیا وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ واقعی ان کے سامنے کرسی پر موجود ہے۔“
”میں اپنے اصول توڑ نہیں سکتا۔“ میں نے بہت سختی سے کہا۔
”ہم اپنے نہیں توڑ سکتے۔”سندر بس جانی نے جواب دیا۔
”میں تو جاتا ہوں۔“
”تو جاﺅ۔“ سندر بولا۔
میں اٹھنے لگا تو سیٹھ داﺅد بولا۔”پریہ تیگانہ تو دیتے جاﺅ۔
ہم تم کواس کے پچاس کے بدلے پچھتر دیں گے اور پانسو کے بدلے تین سو کی رسید لیں گے۔“
”جی نہیں‘ اس گانے کے سو روپے لوں گا اور سو کی رسید دوں گا۔بس۔“
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف مایوس ہو کر دیکھا۔ اتنے میں سیٹھ داﺅد نے پھر کوئی خفیہ اشارہ کیا۔سیٹھ نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کرمیری طرف بہت بیزاری سے پھینک دیا۔ میں نے نوٹ جیب میں رکھا اور رسید لکھ کر دے دی۔ گانا لکھ کر دیا ا ور پتلون جھاڑ کراٹھ کھڑا ہوا۔ اتنے میں پلٹو نے دروازہ کھولا۔ اس کے پیچھے پیچھے نہایت شاندار لباس میں ملبوس وہ لڑکیاں اٹھلاتی‘ بل کھاتی‘ لچکتی ‘ ہنستی مسکراتی کسی تمہید وتعارف اور اطلاع کے بغیر اندر داخل ہوئیں۔ ان دونوں کی ساڑھیوں کے گرد چھ فٹ تک کسی خوشبو کا ایک نہ دکھائی دینے والا ہالا لرز رہا تھا۔ انھیں دیکھ کر داﺅد اور سندر دونوں اپنے صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں تو خیر پہلے ہی سے کھڑا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکی جو دوسری سے قدمیں زیادہ لمبی تھی اور نازک سی تھی اور لباس بھی شاندار پہنے ہوئے تھی‘ میری طرف دیکھ کر کچھ ہچکچائی پھر مڑ کر اپنی سہیلی کا تعارف کرانے لگی۔“ یہ میری سہیلی جیولی ہے آج ہی جبل پور سے آئی ہے اسے فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے۔“
دونوں سیٹھوں نے شگفتہ مسکراہٹ سے ان دونوں کا استقبال کیا۔ پھر پہلی لڑکی نے میر ی طرف غور سے دیکھا۔ سندر نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔“ یہ ساحر کا باورچی ہے۔“
میں جلدی سے ہاتھ جوڑ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ میں تیزتیزقدموں سے واپس لوٹ رہا تھا اور میر ی آنکھوں میں آنسو تھے‘ یکایک میرے پیچھے لڑکیوں کی ہنسی اور قہقہوں کا طوفان سا برپا ہو گیا۔ وہ لوگ کسی بات پر اتنے زور زور سے ہنس رہے تھے‘ سیٹھوں کے قہقہے بھی ان میں شامل تھے۔ کیا وہ لوگ میری حماقت پر ہنس رہے تھے‘ ایسا ’چانس‘ کوئی احمق ہی رد کر سکتا ہے۔ پلٹو کیا کہے گا؟ بے چارنے نے کیسا کیسا دھوکا کر کے مجھے کام دلوا ہی دیا تھا۔ فلم میں پہلا ’چانس‘۔
اوپین ماشٹر! یہ اصول تیرے کس کام کے ہیں؟ کیا تو انھیں چاٹ سکتا ہے؟ کیا ان کی بتی بنا کے جلا سکتا ہے؟ کیا انھیں کھا سکتا ہے؟ انھیں ایک گدے کی طرح فٹ پاتھ پر بچھا سکتا ہے؟ کیا ان اصولوں سے ان لڑکیوں کی خوشبو آتی ہے جن کے قہقہے اب تک تیرے کانوں میں گونج رہے ہیں؟
پھر کب تک ان اصولوں کا کفن سر سے باندھے آرزو ¶ں کے میلے میں گھومے گا؟ اب بھی پلٹ جا اور دستخط کر دے اس معاہدے پر‘ اور شامل ہو جا اس حمّام میں جہاں سب ننگے ہیں۔